خلاصہ رعفران
زعفران ایک ایسی چیز ہے جو سب کو حیران کر دیتی ہے مشہور شاعر کالی داس نے اپنی کتابوں میں زعفران کے کھیتوں کے حسن کی جابجاتعریف کی ہے زعفران کے حسن نے شاعروں ادیبوں اور مفکروں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے زعفران کی کھیت کو زعفران زار بھی کہا جاتا ہے کہتے ہیں کہ اس کی خوبصورتی کو دیکھ کر غیر ملکی فوجیوں نے اس کے حسن کے آگے اپنا سر جھکا دیا اور اس کی خوبصورت حیران ہو گئے اب الفضل نے بھی اپنی کتاب ائین اکبری میں زعفران کی تعریفیں کی ہیں اکتوبر اور نومبر میں سری نگر سے کچھ دور پانپور میں زعفران کی کھیتوں کی خوبصورتی اور حسن دیکھنے کی چیز ہوتی ہے پانپور کے علاوہ کئی اور علاقوں میں بھی اس کی کاشت ہوتی ہے ۔زعفران کو بادشاہوں کا پھول سمجھا گیا ہے۔ یونانیوں کے یہاں زعفران کے رنگ کو شاہی رنگ سمجھا جاتا ہے۔ ہندو کے یہاں بھی زعفران کے تلک کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ زعفران کو کشمیر راجہ بھی کہا جاتا ہے۔ زعفران کی خوشبو سے یونان کے دربار تھیٹر اور ہال مہک اٹھتے تھے کشمیر سے لے کر یونان تک مختلف دواؤں میں زعفران کا استعمال ہوتا رہا ہے ان دنوں کشمیر اور اسپین کے لوگ اپنے کھانوں میں زعفران استعمال کرتے تھے انگلینڈ میں بھی 18 صدی میں اس کی کاشت شروع ہوئی۔ زعفران کی کاشت ایک مستقل فن ہے۔ اس کی کاشت کے لیے خاص قسم کی ڈھلوان زمین درکار ہوتی ہے۔ جولائی اور اگست میں بیج کے بلب ڈالے جاتے ہیں ایک بار ڈالنے کے بعد تقریبا 14 برس تک اس پر زیادہ محنت کی ضرورت نہیں ہوتی اکتوبر میں پھول نکل آتے ہیں پھر ایک خوبصورت باغ ہماری نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے زعفران کی کئی قسمیں ہیں مثلا شاہی زعفران ،مونگر لچھا وغیرہ کشمیر میں زعفران کی کاشتکاری کو بڑے پیمانے پر فروغ دینے کے لیے مرکزی وریاستی حکومت نے کئی منصوبے تشکیل دیے ہیں اور ایک طویل منصوبہ نیشنل زعفران مشن کے تحت ہاتھ میں لیا ہے۔
No comments:
Post a Comment