تازہ ترین

Monday, March 9, 2020

تشریح: غزلیات فراق گورکھپوری

تشریح: غزلیات فراق گورکھپوری

غزل نمبر ۱
رکی رکی سی شبِ مرگ ختم پر آئی
وہ پو پھٹی ،وہ نئی زندگی نظر آئی

تشریح: فراقؔ مطلع میں فرماتے ہیں کہ سامراجی نظام آہیستہ آہیستہ دم توڑ رہا ہے اور یہ ظلم و جبر ختم ہونے والا ہے ایک روشن دور کی شروعات ہوگی۔
۲۔ یہ موڈوہ ہےکہ پرچھائیاں نہ دیں گی ساتھ 
    مسافروں  سے کہو ، اس کی  رہ  گزر  آئی

تشریح : اس شعر میں فراقؔ فرماتے ہیں کہ جنگ آزادی کی جدو جہد ایسی چیز ہے کہ اس میں اپنے بھی ساتھ چھوڈ جاتے ہیں اس لئے جنگ آزادی کی جدوجہد کرنے والوں کو ہمت اور استقلال کے ساتھ چلنا چاہئے۔

۳۔ فضا   تبسم     بہار    تھی        لیکن
   پہنچ کے منزل جاناں پہ آنکھ بھر آئی

تشریح : اس شعر میں فراقؔ فرماتے ہیں کہ طویل جدجہد کے بعد جس قسم کی سماجی اور معاشی آزادی ہمیں ملی اس پر دل افسردہ ہے گویا منزل پر پہنچ کر بھی ہم ابھی منزل سے دور ہے ۔

۴۔ کسی کی بزم طرب میں حیات بٹتی ہے
    امیدواروں میں کل موت بھی نظر آئی

تشریح : اس شعر میں فراقؔ فرماتے ہیں کہ آزادی حیات بخش اور دلفریب ہوتی ہے لیکن آزادی کے شیدائیوں میں چند لوگ ہی اسے دیکھ پاتے ہیں گویا اکثر اس کی جستجو میں موت کو گلے   لگاتے ہیں 

۵۔ کہاں ہر ایک سے انسانیت کا بار اُٹھا
کہ یہ بَلا بھی ترے عاشقوں کے سر آئی

تشریح: اس شعر میں فراق فرماتے ہیں کہ انسانیت ایک عظیم چیز ہے اس کا بوجھ وہی اُٹھا سکتا ہے جو اس کا شیدائی ہوگا ۔


                         غزل نمبر ۲
۱ سر میں سودا بھی نہیں دل میں تمنا بھی نہیں 
لیکن اس ترک محبت کا بھروسہ بھی نہیں 


تشریح : اس شعر میں فراقؔ فرماتے ہیں کہ میرے دل و دماغ میں کوئی عشقیہ جزبہ نہیں ہے گویا میں نے عشق کو ترک کیا ہے لیکن اس کا بھروسہ بھی نہیں ہے یہ جزبہ کبھی بھی میرے دل و دماغ میں پھر سے پیدا ہو سکتا ہے۔

۲۔ دل کی گنتی نہ یگانوں میں نہ بے گانوں میں 
  لیکن اس جلوہ گہ ناز سے     اٹھتا   بھی   نہیں 


تشریح : اس شعر میں فراقؔ فرماتے ہیں کہ نہ مجھے محبوب اپناتا ہے نہ کوئی رقیب لیکن یہ جاننے کے باوجود بھی میں محبوب کی جگہ سے نہیں اٹھتا ہوں گویا دل کو یہ امید ہے کہ کھبی نہ کبھی محبوب مجھ پر نظر کرم کرئے گا ۔

۳ مہربانی کو محبت نہیں کہتے اے دوست 
  آہ اب مجھ سے تیری رنجش بے جا بھی نہیں 


تشریح : اس شعر میں فراقؔ فرماتے ہیں کہ محبت کا جذبہ اور مہربانی کا جذبہ دو الگ الگ چیزیں ہے دو نوں کو ایک نام نہیں دیا جا سکتا اے دوست تمہیں مجھ سے کبھی محبت تھی نہیں پہلے تو میرے ساتھ رنجش تھی اب وہ بھی نہیں رہی جس کو دیکھ کر مجھے لگ رہا تھا کہ ہم میں کوئی نہ کوئی تعلق ہے جس وجہ سے آپ ناراض رہتے ہو ۔
  
۴۔ ایک مدت سے تیری یاد بھی         نہ آئی ہمیں 
   اور ہم بھول گئے   ہوں   تجھے ایسا بھی نہیں



تشریح : اس شعر میں فراقؔ فرماتے ہیں کہ طویل عرصہ گزرا مجھے تیری یاد نہیں آئی لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ میں تمہیں بلکل بھول گیا ہوں۔


۵۔ آہ یہ مجمع احباب یہ بزم خاموش 
  آج محفل میں فراق سخن آرا بھی نہیں 

تشریح : اس شعر میں فراقؔ فرماتے ہیں کہ آج یہ محفل خاموش ہے یہاں سکوت چھایا ہوا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ آج اس محفل میں فراق موجود نہیں تھا اگر فراق موجود ہوتا تو وہ کلام سناتا اور یہ پر رونق محفل ہوتی۔



                          غزل نمبر ۳

۱۔آنکھوں میں جو بات ہوگئی 
    اک شرح حیات ہوگئی ہے

فراقؔ مطلع میں فرماتے ہیں کہ جب میں نے اپنے محبوب سے آنکھیں ملائی تو اشاروں اشاروں میں اسے اپنے دل کی بات کہہ اب ایسا لگ رہا ہے کہ ساری زندگی اسکے عشق میں گزانی ہے۔

۲۔ کیا جانئے موت تھی پہلے
       اب میری حیات ہوگئی

تشریح: فراق اس شعر میں فرماتے ہیں کہ پہلے میں موت کے درد سے نا آشنا تھا لیکن اب اس زندگی نے موت کے درد سے آشنا کیا گویا یہ زندگی اتنی اذیت ناک بن گئی ہے کہ اسے موت ہی بہتر ہے ۔

۳۔ اس دور میں زندگی بشر کی 
   بیمار کی رات ہوگئی

تشریح: فراق موجودہ دور کے انسان کی زندگی کو بیمار کی رات سے تشبیہ دے کر فرماتے ہیں کہ موجود میں انسان کی اتنی ازیت ناک ہے کہ جتنی بیماری کی رات  درد ناک ہوتی ہے 

۴۔ جس چیز کو چھو دیا ہے تو نے
    اک برگ نبات ہوگئی ہے




تشریح: فراق اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میوے محباب میں ایک منفرد خوبی ہے وہ جس چیز کو چھو لیتا ہے اس میں تازگی اور مھٹاس پیدا ہوتی ہے ۔



۵۔ اک ایک صفت فراق اس کی   
 دیکھا ہےتو ذات ہوگئ ہے



تشریح: فراق اس شعر میں اپنے آپ سے مخاطب ہو کر  فرماتے ہیں کہ اے تو اس قدر اپنے محبوب سے محبت رکھتا ہے کہ تو نے اس کی ساری خوبیاں اپنی ذات میں شامل کئی ہیں۔



No comments:

Post a Comment