خلاصہ پولیتھین جن
گاؤں کے کسان سرپنچ کے صحن میں جمع ہوئے وہ بہت ہی دل ملول اور دکھی تھے ایک ادمی ان میں سے سرپر سے مخاطب ہوا کہ سرپنچ صاحب ہم لٹ گئے ہیں ہمارے کھیت برباد ہو چکے ہیں ہمارے کھیتوں پر کسی دیو یہ جن کا سایہ ہے اس لیے ہماری کھیتوں میں فصل کی پیداوار کم ہو گئی ہے یعنی کہ ہماری کھیت بنجر ہو چکے ہیں یہ سن کر ایک نوجوان لڑکے کو غصہ ایا اور اس نے کہا کہ ہماری کھیتوں کی مٹی خراب ہو گئی ہے ان پر کسی دیوے جن کا سایہ نہیں ہے اس پر اس کو ڈانٹا گیا اور لوگوں نے کہا کہ تمہارا دماغ خراب ہو گیا ہے اپ نے چار جماعتیں کیا پڑھی ہے اپ ہمیں باشن دینے لگے ہو اسی دوران باہر سے لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہوتا ہے سبھی لوگ اواز پر کہاں درتے ہیں اعلان میں کہا جا رہا تھا کہ تمام گاؤں والوں کو اطلاع دی جاتی ہے وہ کل صبح بڑے کھیت میں جمع ہو جائے جہاں ماہرین کی ایک ٹیم مٹی کا جائزہ لے گی اس کے بعد سب لوگ کھیت میں جمع ہو جاتے ہیں اور ماہد مٹی کی جانچ کر کرتے ہیں ماہرین جب مٹی کی جانچ کرتے ہیں تو وہ گاؤں والوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ اپ کی اپ کے کھیت بیمار ہو چکے ہیں یعنی کہ اپ کی کھیتوں کی مٹی الودہ ہو چکی ہے تو اس پر نوجوان حیران ہو جاتا ہے اور کہتا ہے کہ ہماری کھیتوں کو کون سی بیماری لگ گئی ہے اور کیسے ماہر کہتا ہے کہ پولیتھین لفافوں سے تم جو پولیتھین لپھاپے اپنے کھیتوں میں ڈالتے ہو اس سے اپ کی زمین ناکارہ ہو چکی ہے اس لیے اس کھیت سے اب اناج نہیں اگ پا رہا ہے ماہر مجید کہتا ہے کہ پولتھین انسانوں کے ساتھ ساتھ ا بھی جانوروں کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہو رہا ہے ان میں سے ایک ادمی کہتا ہے وہ کیسے ماہر اس پر جواب دیتا ہے استعمال شدہ پولیتھین دفاع پہ گلی کو جو میں پڑے ہوتے ہیں مویشی انہیں نگل دیتے ہیں مگر ہضم نہیں ہونے کی صورت میں وہ اہستہ اہستہ مویشی کی جان لیتے ہیں اسی طرح ابی جانور بھی دھوکے میں ا کر زہری لیشائی کو نگل لیتے ہیں جو ان کی موت کا باعث بنتا ہے ان میں سے ایک ادمی ماہر سے پوچھتا ہے کہ تھوڑے سے لفا پہ اتنی زمین کو خراب کیسے کر سکتے ہیں ماہر جوابا کہتا ہے پولیتھین لفا پہ اس وقت کافی مقدار میں فروخت کیے جاتے ہیں امریکہ کی ایک مہلت ایجنسی کے مطابق دنیا میں ہر سال تقریبا 10 ارب پولی تھی لپھاپے فروخت کیے جاتے ہیں جن کا صرف ایک فیصد حصہ سال بھر میں ضائع کیا جاتا ہے اپ لوگوں کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ پولیتھین کی سب سے خطرناک قسم کالے پل رنگ کا پولیتھین ہے اس پر سر پر صاحب کہتے ہیں کہ گاؤں والوں مجھے اس بھائی کی بات درست معلوم ہوتی ہے ہمیں اپنے کھیتوں کا دشمن نہیں بننا چاہے پولیٹین اور پلاسٹک کا کھلے عام استعمال نہیں کرنا چاہیے سب لوگ اس پر ایک ساتھ ہو کر کہتے ہیں کہ یہ صاحب بالکل سچ کہہ رہے ہیں ماہر اس پر کہتا ہے کہ میرے بھائیو ایک عام جن تو اپ جاڑ پھونک کے ذریعے نکلوا سکتے ہیں مگر پولیتھین جن اتنا خطرناک اور طاقتور ہے کہ اس کو نکالنا ناممکن ہے ماہر مجید کہتا ہے کہ اپ لوگوں کو متحد ہو کر پولیتھین کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے سرکار کو اس بات پر مجبور کرنا ہے کہ اس زہری شئے پر مکمل پابندی کو لگائی جائے نوجوان لڑکا کھڑا ہو کر کہتا ہے آواز دو سب لوگ یک زبان کہتے ہیں ہم ایک ہے اس کے ساتھ ہی ڈرامہ کا یہ سین ختم ہوتا ہے
No comments:
Post a Comment