گزرا ہوا زمانہ کا خلاصہ از سر سید احمد خان
اس مضمون میں سر سید احمد خان نے تمثیل کے رنگ میں حقیقت کا اظہار کیا ہے ۔دراصل ایک لڑ کا خواب دیکھتا ہے۔ اور اس میں اس کو گزرے ہوئے زمانے کی یاد آتی ہے۔ خواب میں کیا دیکھتا ہے کہ وہ بوڑھا ہو گیا ہے اور ایک اندھیرے گھر میں اکیلا بیٹھا ہے۔ رات خوفناک ہے۔ آسمان پر گھٹا چھائی ہوتی ہے۔ بجلی کڑکتی ہے اور آندھی زور و شور سے چل رہی ہے۔ یہ منظر دیکھ کر انسان کا دل کا پتا ہے ۔ اور دم گھٹا جاتا ہے ۔ بوڑھا آدمی اپنے آپ کو غمگین دیکھتا ہے اس کے غمگین ہونے کی وجہ ڈراؤنا سمان نہیں ہے ، آندھی کے چلنے کی و وجہ سے وہ غمگین نہیں ہے اندھیری رات کی وجہ سے وہ گھبراتا نہیں ۔ نہ اس لئے کہ یہ اس سال کی آخری رات ہے۔ بلکہ اس لئے وہ غمگین اور رنجیدہ ہے کہ اس کو اپنا گزرا ہوا زمانہ یاد آتا ہے اور اس یاد کی وجہ سے اس کا غم اور دکھ بڑھتا جاتا ہے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہیں۔ گزرا ہوا زمانہ اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا ہے اس کو اپنا بچپن ، لڑکپن اور جوانی کے دن یاد آتے ہیں جب کہ وہ زندگی میں بہت ہی بے فکر رہا کرتا ہے۔ اس کو کوئی غم اور کوئی اندیشہ نہیں ہوتا تھا ۔ وہ روپیہ کی کوئی پرواہ نہیں کرتا تھا ۔ بلکہ مٹھائی اور ریوڑی کی فکر ہوتی تھی۔ گھر کے سب لوگ ، ماں، باپ، بھائی ، بہن اس کو لارڈ پیار کرتے تھے سب پالتے تھے۔ سکول سے گھر جلدی سے آنا ۔ یاد آنے لگا۔ اس کے علاوہ وہ اپنے مدرسہ کے سارے ساتھی یاد آنے لگتے ہیں۔ ان کو یاد کر کے وہ اور زیادہ غمگین ہو جاتا ہے اور وقت گزرنے کے لئے اظہار افسوس کرتا ہے۔ وہ اپنی جوانی کا زمانہ یاد کرتا ہے ۔ جب کہ وہ بہت ہی خوبصورت نوجوان تھا اس کا جسم تو انا ، مضبوط اور سڈول تھا، اور اس کی آنکھوں میں محبت کے آنسو موجود تھے، دانت صاف اور دل میں امنگیں بھری ہوئی تھیں۔ جوش اور جذبات موجود تھے۔ نا امیدی کی وجہ سے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا جاتا تھا۔ کیونکہ والدین جو کچھ نصیحت کرتے تھے وہ ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دیتا تھا۔ اب یہ سب کچھ یاد کر کے وہ پچھتاتا ہے۔ خدا پرستی بھلائی اور نیکی کی باتیں وہ سب یاد کر کے وہ سمجھتا کہ سارا وقت ضائع کیا۔ وقت کو برباد کیا۔ ان سب باتوں کو یاد کر کے وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ اور ٹٹول جا کر کھڑ کی تک جا پہنچا کھڑ کی کھولی دیکھا کہ رات برابر ڈراؤنی ہے۔ اندھیری گھٹا چھا رہی ہے ۔ بجلی کڑک رہی ہے۔ جس کی آواز سے انسان کا دل پھٹا جاتا ہے آندھی کا زور تھم نہیں گی۔ ایک بار وہ پھر اپنے رشتے کے سب لوگوں کو یاد کرکے ، بھائی ، بہن ، دوست، آشنا یاد آتے ہیں جن کے ساتھ اس نے اپنا بچپن بسر کیا تھا۔ جن میں اکثر مر چکے ہیں اور ان کی ہڈیاں قبروں میں گل کر خاک ہو چکی تھیں اور ماں اب اس کو محبت سے چھاتی سے لگاتی ہے۔ اور ماں کی آنکھوں میں محبت بھرے آنسو بہہ رہے ہیں اور وہ اپنے بیٹے کو سمجھا رہی ہے کہ وقت ضائع کیا۔ بھائی ، بہن اس کے لئے اظہار افسوس کر رہے ہیں۔ یہ سب رشتے کے لوگ اس کے لئے پچھتا رہے ہیں۔ غرض وہ بچپن کی سب باتیں یاد کرتا ہے کہ اس نے قیمتی وقت باتوں میں گزارا۔ اس نے دوستوں ، بھائی ، بہن کے ساتھ جو ناروا سلوک روا رکھا تھا۔ وہ سب کچھ اس کو ایک ایک کرکے یاد آیا۔ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ ہمدردی کا سلوک نہ کرنا ۔ ہر بات کو ٹالنا اچھی طرح یاد آیا اور اس کے دل میں ان کے ساتھ ہمدردی کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اور اس کا دل ان باتوں کو یاد کر کے پاش پاش ہو جاتا ہے۔ ڈرنے لگتا ہے ۔ دل بے چین ہو جاتا ہے۔ افسوس کرتے کرتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوتا ہے کہ وقت چلا گیا۔ اس کا بدلہ ہو نہیں سکتا۔ اس گھبراہٹ کے ساتھ وہ کھڑکی کی جانب دوڑا ۔ ٹکراتا ہوا کھڑکی تک جا پہنچا۔ کھڑکی کھول کر دیکھا کہ ہوا کا زور اب نہیں ۔ آندھی تھم گئی ہے۔ مگر رات ابھی اندھیری ہے۔ اب اپنا ادھیڑ پن یاد آتا ہے جبکہ وہ برائی کی نسبت نیکی کی طرف زیادہ مائل تھا ، روزہ رکھنا نمازیں پڑھنا، حج کرنا، زکوۃ دینی بھوکوں کو کھلانا مسجدیں اور کنویں بنوانا۔ یاد کر کے اپنے دل کو تسلی دیتا تھا، فقیروں اور درویشوں کو جن کی خدمت کی تھی ، اپنے مرشدوں کو جن کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اپنی مدد کو پکارتا تھا مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی ، وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے ، بھو کے پھر ویسے بھوکے ہیں۔ مسجدیں کھنڈر بن چکی ہیں۔ کنویں اندھے پڑے ہیں۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے۔ سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیا۔ جو تمام فانی چیزوں سے دل لگایا۔ یہ کہہ کر وہ افسوس کا اظہار کرتا ہے۔ اور ہائے وقت ہائے وقت پکارتا ہے آسمان پر بادل صاف ہو گئے تھے۔ اندھیرا بھی کم ہونے لگا تھا، وہ دل بہلانے کے لئے تاروں بھری رات کو دیکھ رہا تھا ، اچانک آسمان کے بیچ میں ایک روشنی دکھائی دی. اور اس میں ایک خوبصورت دھن دکھائی دی۔ اور متواتر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اور اس سے پوچھا کہ تم کون ہو۔ اور وہ بولی ہمیشہ رہنے والی میں نیکی ہوں ۔ اور کہا کہ تم کو قابو میں لانے کے لئے کوئی عمل ہے۔ وہ بولی کہ جو ہمیشہ نیکی کرے ۔ خدا کا فرض ادا کرے ۔ اس کے قابو میں آتی ہوں۔ دنیا میں ہمیشہ انسان کو بھلائی کے لئے کوشش کرنی چاہئے ۔ یہ کہہ کر دلھن اس کی آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ اب یہ پھر اپنا گزرا ہوا زمانہ یاد کرنے لگا کہ اس نے بچپن میں کوئی نیک کام انجام نہیں دیا تھا۔ بلکہ اس کے سارے کام ذاتی اغراض کے لئے ہوا کرتے تھے۔ قومی بھلائی کے لئے کوئی کام نہیں کیا تھا۔ اس طرح مایوس ہو کر وہ دلھن سے ملنے کی کوئی توقع نہیں کر سکتا۔ اپنے اخیر کے زمانے کو دیکھ کر آئندہ کرنے کی کچھ امید نہ پائی ۔ مایوس ہو کر پچھتانے لگا اور ہائے وقت ہائے وقت کہنے لگا۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کے کانوں میں میٹھی آواز آنے لگی۔ اس کی پیاری ماں اس کے پاس آگئی اور اس کو گلے لگا کر اس کی بلائیں لیں ۔ اس کو باپ دکھائی دیا۔ چھوٹے بھائی بہن اس کے ارد گرد سب جمع ہو گئے اور کہنے لگے سال کے اخیردن کیوں روتے ہو۔ اٹھومنہ ہاتھ دھو لو اور کپڑے پہن کر نوروز کی خوشی مناؤ۔ یہ خوشی کا دن ہے مایوس ہونے کی کوئی بات نہیں بلکہ وہ کام کرو جن کے متعلق دلھن نے تم کو کہا ہے۔ یہ سن کر لڑ کا پلنگ پر سے کود پڑا اور نہایت خوشی سے پکارا یہی میری زندگی کا پہلا دن ہے، میں بوڑھے کی طرح کبھی نہیں پچھتاؤں گا۔ بلکہ ضرور اس دلھن کو بیاہ کروں گا جس نے مجھے اپنا خوبصورت چہرہ دکھایا اور ہمیشہ زندہ رہنے والی نیکی اپنا نام بتایا ۔ اے خدا تو میری مدد کر۔
No comments:
Post a Comment