سبق
نمبر
03
لل دید
سوالات .
س
1: لل دیدکس وجہ
سے مشہور ہے
؟
جواب : لل
دید صبر، شرافت
اور پاکبازی کی
وجہ سے مشہورہیں۔.
س
:2 : لل دید
کے زمانے میں
کون بزرگ حضرات
گزرےہیں ؟
جواب : لل
دید کے زمانے
میں حضرت امیر
کبیر سید علیؒ
ہمدانی اور حضرت شیخ
نور الدینؒ وغیرہ
بزرگ حضرات گزرے ہیں۔
.
س
3 :حضرت
شیخ نور الدینؒ
کو دودھ پلاتے
وقت لل دید نے
کیا کہا ؟ -
جواب: حضرت
شیخ نور الدینؒ کو دودھ پلاتے وقت لل دید نے
کہا " ائے ننھےدنیا میں آتے
ہوئے تمہیں لاج
نہ آئی تو اب
دودھ پینے میں
کیسی شرم"
س :4 لل دید کے
واکھوں میں کن
باتوں کی تلقین
کی گئی ہے ؟
جواب : لل
دید کے واکھوں
میں اونچ نیچ اور ذات پات
کے غیر فطری
بندھنوں کو توڑنے
اور اعلی انسان
قدروں کو اپنانے
کی تلقین کی گئی
ہے . .
س
:5 لل
دید کو کن
کن ناموں سے
پکارا جاتا ہے
؟
جواب : دل
دید کو پدماوتی
،لل عارفہ
اور لل ایشوری جیسے
ناموں سے پکارا
جاتا ہے .
غور کرنے کی بات :
اس
سبق میں " نیم
برہنہ " کی ترکیب
استعمال ہوتی
ہے ۔ اُردو میں
ایسے بہت سارے
الفاظ ہیں جن
کے آگے " نیم
" جوڑنے
سے اُن کے
معنی بدل جاتےہیں۔
یہ تراکیب دیکھیے
:
نیم
شب۔ نیم باز
- نیم عریان - نیم
حکیم - نیم روز-
نیم کش ۔ نیم بسمل
خلاصہ لل دید
لل دید ہماری درسی کتاب کا ایک دلچسپ مضمون ہے اس میں مصنف لکھتے ہے کہ وادی کشمیر ابتدا سے ہی عابدوں پرہیزگاروں کی سر زمین رہی ہے ان عظیم شخصیتوں میں ایک عظیم خاتون بھی گزری ہے جس کو لوگ لل دید کے نام سے جانتے ہیں لل دید سیمپور میں پیدا ہوئی اس زمانے کے رواج کے مطابق ان کے باپ نے ان کی شادی کم عمری میں ہی پانپورمیں ایک پنڈت گھرانے میں کر دی ۔ سسرال میں ان کا نام پدما وتی رکھا گیا۔ سسرال میں ساس اور شوہر کے برے سلوک کی وجہ سے ان کی شادی شدہ زندگی بڑی تلخ گزری۔ ایک دن ان کے سسرال میں ایک دعوت کا اہتمام تھا لل دید حسب روایت اس دن گھاٹ پر پانی بھرنے کے لیے گئی وہاں ہنستے ہنستے ان کی سہیلیوں نے ان سے کہا کہ کل تم نے پیٹ بھر کر کھانا کھایا ہوگا اس پر لل دید کے منھ سے بے ساختہ ایک شعر نکلا جو کشمیر زبان میں تھا اس شعر کے معنی ہیں '' مینڈھا پکے یا بکرا لل کی قسمت میں وہی بٹا ہے'' لل دید کی ساس کھانا پروستے وقت ان کے برتن میں ایک بٹا رکھتی تھی تاکہ چاول کا برتن خوب بھرا ہوا معلوم ہو لل دید کھانا ختم کرنے کے بعد یہ بٹا دھو کر ایک طرف رکھ دیتی تھی تاکہ ان کی ساس کو دوسرا پتھر ڈھونڈنے کی زہمت نہ اٹھانا پڑے ۔ یہ شعر ان کے سسر تک پہنچا اس نے اس بات کی تحقیق کی اور یہ سچ ثابت ہوا ۔ لل دید ایک صابر اور پاکبار خاتون تھیں ۔جب سسرال کی زیادتیاں بڑھ گئی انہوں نے گھویلو زندگی کو خیر باد کہہ دیا اور مست قلندر کی طرح ادھر ادھر گھومنے لگی ۔ ایک دفعہ نیم برہنگی کی حالت میں میر سید علی ہمدانی سے ان کا سامنا ہوا لل دید کو شرم محسوس ہوئی اور پاس ہی نان بائی کے دہکتے ہوئے تنور میں کود پڑی جب نان بائی نے تنور کا ڈکن کھولا تو لل دید خوبصورت لباس پہن کر تنور سے بر آمد ہو گئی ۔ کہتے ہیں کہ جب شیخ نور الدین ولی پیدا ہوئے تو وہ ماں کا دودھ نہیں پی رہے تھی اس کی ماں نے اپنی پریشانی کا ذکر لل دید سے کیا لل دید نے ننھے کوگود میں اٹھایا اور کہا کہ آئے ننھے دنیا میں آتے ہوئے تمہیں لاج نہ آئی اب دودھ پینے میں کیسی شرم۔ لل دید ایک فطری شاعرہ تھیں انکا کلام تحریر میں آنے سے پہلے لوگوں کے اجتماعی حافظے میں محفوظ تھا ان کا کلام واکھ کہلاتا ہے ان کے کلام میں اونچ نیچ کے غیر فطری بندھنوں کو توڑنے اور اعلیٰ انسانی قدروں کو اپنانے کی تلقین کی گئی ہے ۔ لل دید ہندو مسلم دونوں قوموں میں یکساں مقبولیت رکھتی تھی لل دید کو مسلم لل عارفہ اور ہندو لل ایشوری کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔
No comments:
Post a Comment