جدید سائنس اور تکنالوجی نے بے پناہ ترقی کی ہے۔ صنعتی ترقی کی وجہ سے آدمی کی شناخت ختم ہوتی جارہی ہے۔ انسانوں کو ہرلحہ مٹ جانے کا خوف ہے۔ کثرت آبادی کا مسئلہ ہے۔ سائنس اور تکنالوجی کے مقابلے میں روحانی اور اخلاقی قدریں سست رو ہیں ۔ جدیدیت کی جڑیں فلسفہ وجودیت سے ملتی ہیں۔ فلسفہ وجودیت یہ ہے کہ سب کچھ ختم ہونے والا ہے۔ موت اصل حقیقت ہے انسان ابدیت کے ایک خیالی تصور میں جی رہا ہے۔
1960ء کے لگ بھگ جدید ذہن کے ادیبوں نے ترقی پسند مصنفین کی جماعت بندی اور نظریاتی وابستگی کے خلاف آواز بلند کی انہوں نے کہا کہ ادیب کی وابستگی مخصوص سیاسی جماعت یا نظریے سے نہیں بلکہ اپنی ذات سے ہونی چاہئیے ۔ جدیدیت کی مختلف تعریفیں کی گئیں لیکن اس کی آسان تعریف یہ ہے کہ جدیدیت ایک روئے ایک انداز فکر کا نام ہے۔ اس کا مطلب ہر نقش کہن کو مٹانا نہیں ہے۔
1960ء کے بعد اردو افسانے میں پریم چند اور ترقی پسند افسانہ نگاروں کی حقیقت نگاری سے انحراف کیا گیا۔ کہانی سے انحراف پلاٹ کردار آغاز انجام اور وحدت تاثر کو ضروری نہیں سمجھا گیا۔ نئے نئے تجربے کیئے گئے ۔ شاعری اور نثر کی حدیں توڑنے کی کوشش کی گئی۔ جدید افسانے کو اس طرح تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ داستانوی علامتی ایہامی یا تجریدی داستانوی افسانے میں حکایتی اسلوب کو بروئے کار لا کر اسطور اور دیو مالائی کہانیوں کے ذریعہ کسی ہم عصر واقعے کو بیان کیا جاتا ہے۔ علامتی اظہار کے ذریعہ شعوری اور نیم شعوری رشتوں کو ابھار کر افسانہ نگار معنوی تہہ داری پیدا کرتا ہے۔ بے ماجرا بے کردار ہے واقعہ افسانہ ابہام پیدا کرتا ہے۔ کردار یا واقعے کی تجرید سے افسانے میں ابہام پیدا ہوتا ہے۔ غیر مربوط روایتی کسانی قواعد سے روگردانی کر کے بے معنویت پیدا کی جاتی ہے ۔ شعری اظہار اور ہیئت بھی افسانے کو مبہم بناتی ہے۔ تجریدی افسانوں میں یہی طریقے برتےگئے ۔ ریاضیاتی شکلیں بنائی گئیں۔
جدیدیت میں تنقید نے بے حد ترقی کی ۔ آل احمد سرور نے جدیدیت کا کھلے دل سے استقبال کیا۔ ہیتیی تنقید کی بنیاد پروفیسر مسعود حسین خاں نے رکھی۔ شمس الرحمن فاروقی نے بھی ہیتی تنقید کو فروغ دیا۔ انہوں نے مشرقی شعریات کا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا۔ گوپی چند نارنگ نے اسلوبیاتی تنقید کے بہترین نمونے پیش کیے۔ انہوں نے افسانے پر خاص توجہ دی۔ ساختیات، پس ساختیات اور مابعد جدیدیت کے تصورات کو اردو والوں سے روشناس کروایا۔ معنی تقسم کا شمار بھی ہیئتی نقادوں میں ہوتا ہے۔ حامدی کاشمیری بھی ہیئتی نقاد ہیں لیکن وہ اس تنقید کو اکتشافی تنقید کا نام دیتے ہیں۔ شمیم حنفی نے سماجی و تاریخی محرکات کے مطالعے کو فوقیت دی۔ وارث علوی نے تاثراتی طریق کار کو اپنایا۔ وہ فکشن کے نقاد ہیں ۔ منٹو اور بیدی پر انہوں نے خصوصی توجہ صرف کی۔ عالم خوند میری نے وجودیت پسندانہ طرز فکر کو مطلعہ ادب کی اساس بنا کر اردو تنقید کی۔ فیضل جعفری اور وحید اختر نے " تمدنی تنقید کی۔
No comments:
Post a Comment