قصیدہ تضحیک روزگار کا عمومی جائزہ
قصیدہ در ہجواسپ المسمیٰ بہ تضحیک روزگار کا عمومی جائزہ۔
قصیدہ درہجواسپ المسمیٰ بہ تضحیک روز گاز سودا کا ایک مشہور اور نہایت مقبول قصیدہ ہےاورفنی اعتبارسے یہ قصیدہ ہجویہ ہے قصیدہ ہجویہ ایسے قصیدہ کو کہتے ہیں جس میں کسی کی مذمت کی گئی ہو اور عیبوں اور برائیوں کو بیان کیا گیا ہو۔
چوں کہ سودا نے اس قصیدہ میں ایک گھوڑے کے عیوب بیان کئے ہیں۔ اس لیے یہ قصیدہ ' ہجویہ' کہلاتا۔ قصیدہ چاہے مدحیہ ہو یا ہجویہ دونوں میں مبالغہ آرائی کو قصیدہ کا حُسن سمجھا جاتا ہے۔ اور اعلیٰ اور عمیق خیالات پر شوکت ا لفاظ اور زور بیان بھی قصیدہ کے حسن کو دوبالا کرتے ہیں۔ سو د ا نے جو ایک مشہور اور کامیاب قصیدہ نگار شاعر ہیں اورخاص کر انہیں ہجویہ قصیدہ نگاری میں کمال حاصل ہے۔اپنے اس قصیدہ میں قصیدہ کے لوازمات کو پوری طرح بر تا ہے۔ سودا نے اس قصیدہ میں گھوڑے کو حکومت اورفوج کی علامت کے طور پر استعمال کیا ہے اور اپنے عہد کی معاشی بدحالی حکومت کی بدانتظامی اور فوج کی حالت زار پرسخت طنز کیا ہے۔ اس میں یہ روداد بیان کی ہے کہ ان کے ایک دوست کے پاس بے شمار عراقی اور عربی گھوڑےہوا کرتے تھے ۔ لیکن اب ان کے پاس صرف ایک نیم مردہ گھوڑا رہ گیا ہے۔ وہ اس قدر لاغر اور کمزور ہے کہ اس پر سواری ممکن ہی نہیں ۔ وہ سوروپے تنخواہ پاتا ہے۔ اس کے باوجود اپنے گھوڑے کو دانہ پانی نہیں دیتا اور نہ ہی گھوڑے کی د یکھ بھال کے لیے کوئی سائیں مقرر ہے۔ اس کے بعد یہ واقعہ نظم کیا ہے کہ ایک دن انہیں کہیں جانے کی ضرورت پیش آئی۔ سوچا کہ اپنے دوست کا گھوڑا لے جائیں اور جب انہوں نے گھوڑا مستعار مانگا تو دوست نے راست طور پر انکار کرنے کی بجائے گھوڑے کی خستہ حالی کی تفصیل سنانی شروع کر دی۔اس موضوع کو سودا نے ڈرامائی انداز میں پیش کیا ہے۔ گھوڑے کی کمزوری ،ضعف اور نا توانی کو مضحکہ خیز انداز میں پیش کیا ہے اور الفاظ کے برمحل انتخاب محاوروں کے برجستہ استعمال اور طنز وظرافت کے ذریعہ اس ہجویہ قصیدہ کے لطف کو دوبالا کر دیا ہے۔ غرض کہ سودا نے قصیدہ کے فنی لوازم کو ہنر مند ی کے ساتھ استعمال کرتے ہوئے ، اسے ایک دل چسپ اور موثر قصیدہ بنادیا ہے۔
No comments:
Post a Comment