تازہ ترین

Tuesday, October 10, 2023

امراؤ جان ادا کا تنقیدی مطالعہ

  امراؤ جان ادا کا تنقیدی مطالعہ

امراؤ جان ادا میں جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے کہ طوائف مرکزی کردار ہے لیکن جس طرح منظر بغیر پس منظر کے ابھر نہیں سکتا اسی طرح طوائف کا کردار بھی اس وقت تک ابھر نہیں سکتا تھا جب تک کہ اسی ماحول کو نہ پیش کیا جائے جس میں طوائف اپنی زندگی گزار رہی ہے۔ ناول کا موضوع طوائف اور اس کا ماحول ہے۔ اس موضوع سے مرزا کا مزاج پوری طرح ہم آہنگ تھا۔ مرزا اپنی زندگی میں ایک طوائف سے ضرور متاثر ہوئے تھے جیسا کہ افشائے راز سے بھی ثابت ہے۔ ناول نگار جب کسی حقیقی کردار سے بھی متاثر ہوتا ہے تو وہ اس کی ہو بہو تصویر پیش نہیں کرتا۔ وہ ان سے اپنی ضرورت کے مطابق اہم صفات کو لے لیتا ہے اور اپنے تخیل کے زور سے ان کی دوبارہ تخلیق کرتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ مرزا رسوا حقیقی کرداروں کو پیش کیے بغیر ناول نہیں لکھ سکتے تھے ۔ کیونکہ ان کے تمام ناولوں میں خود ان کی اپنی زندگی سے گہرا تعلق ہے۔ امراؤ جان ادا میں بھی انھوں نے حقیقی انسانوں کی زندگی سے اور بہت کچھ ”شاہد رعنا سے اخذ کیا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے رسوا کے ذہن میں کسی طوائف کا جو تاثر تھا وہ شاہد رعنا کو پڑھنے کے بعد اس قدر واضح اور روشن ہو گیا کہ انھوں نے طوائف کو اپنے ناول کا مرکزی کردار بنا دیا۔ اس کے ساتھ چونکہ ناول ان کے نزدیک ” نظام معاشرت“ کو پیش کرنے کا بہترین ذریعہ ہے اس وجہ سے یہ ناول ان کا شاہکار بن گیا۔

اس ناول کی کامیابی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ اس میں ان کی وہ شخصیت نمایاں ہوتی ہے جس کو وہ سب سے پوشیدہ رکھنا چاہتے تھے۔ ناولوں میں ان کا حقیقی نام مرزا محمد ہادی نہیں ملتا بلکہ مرزا رسوا‘ ملتا ہے۔ افشائے راز اور شریف زادہ کے تعلق سے جیسے کہ ہم دیکھ چکے ہیں انھوں نے اپنی ہی سرگذشت لکھی ہے۔ شریف زادہ ذات شریف اور امراؤ جان ادا یہ تینوں ناولوں میں مرزا کی ذ  ا ت مختلف انداز سے نمایاں ہوتی ہے۔

ناول سائنسی کتاب کی طرح خارجی انداز میں جمع کیے ہوئے حقائق کو پیش کر دینا نہیں ہے بلکہ مصنف کے مزاج کے ذریعے حقائق کو داخلی طور پر دیکھنا اور دکھانا بھی ضروری ہوتا ہے۔ امراؤ جان ادا کے مقابلے میں شریف زادہ اور ذات شریف اسی وجہ سے زیادہ متاثر کن نہیں بن سکے ہیں کہ اس میں حقائق زیادہ ابھر آتے ہیں۔ خاص طور پر شریف زادہ ناول نہیں بن سکا ہے وہ سوانح عمری بن کر رہ گیا ہے۔ یہی اس کی ناکامی کا سبب ہے ذات شریف اگر چہ کہ شریف زادے کے مقابلے میں بہت کامیاب ناول ہے لیکن یہ بھی امراؤ جان کی بلندی کو نہیں پہنچ سکا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان ناولوں میں کرداروں کی خارجی اور داخلی زندگی کی پیش کشی میں توازن نہیں ہے۔

امراؤ جان ادا اس لیے شاہکار بن گیا ہے کہ اس ناول میں انسانی زندگی کے تاریخی یعنی خارجی یا ظاہری پہلوؤں اور داخلی پہلوؤں میں ایسا نپا تلا امتزاج ہے جو ان کے کسی اور ناول میں نظر نہیں آتا۔ امراؤ جان ادا کی کامیابی کا سبب در حقیقت صرف یہی ہے کہ رسوا نے معاشرے کی عکاسی تک اپنے آپ کو محدود نہیں کرلیا بلکہ ادا اور دوسرے کرداروں کے احساسات اور جذبات کو پوری طرح پیش کیا ہے اور اس پیش کشی میں رسوا نے ایسی بہت سی باتیں بیان کر دی ہیں جن کو اپنے سے منسوب کرتے ہوئے انھیں شرم آتی تھی۔ گویا یہاں رسوا کی شخصیت کا داخلی پہلو بے نقاب ہوتا ہے۔ اچھا فن پارہ مصنف کی ظاہری زندگی سے زیادہ اس کا خواب" ہو سکتا ہے یا نقاب ہو سکتا ہے۔ اس خواب کے پیچھے اس نقاب کے پیچھے مصنف کی شخصیت چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ رسوا کے بارے میں ان کے قریبی دوست اور ساتھی محمد ہادی عزیز لکھنؤ کا یہ کہنا ہے کہ مرزا ہمیشہ کے رنگین مزاج تھے ۔ مرزا کی رنگین مزاجی کی منھ بولتی تصویر امراؤ جان ادا" ہے۔ رسوا نے اپنے کرداروں کی داخلی زندگی پیش کرتے ہوئے سماجی حقائق کو بھی ملحوظ رکھا ہے جس کی وجہ سے ان کا یہ ناول زندگی سے بہت قریب ہو گیا ہے۔ انھوں نے داخلیت اور خارجیت کے توازن کو برقرار رکھتے ہوئے فرد اور سماج کے رشتے کو اس عمدگی سے پیش کیا ہے اس کی مثال ان کے کسی دوسرے ناول میں نہیں ملتی ۔ 

امراؤ جان ادا اپنی اس خصوصیت کی وجہ سے ابتدا ہی سے قاری کی دلچسپی کو اپنی طرف مبذول کر لیتا ہے۔ قاری خود بھی اپنے آپ کو اس ماحول میں محسوس کرنے لگتا ہے۔ ناول کی ابتدا ہی سے لکھنؤ کی تہذیبی اور تمدنی زندگی اپنی خصوصیات سمیت آنکھوں کے سامنے گھومنے لگتی ہے۔ ایک مشاعرے میں قاری امراؤ جان ادا سے متعارف ہوتا ہے۔ مشاعرے کی وجہ سے لکھنؤ کی مجلسی زندگی کے مختلف پہلو سامنے آنے لگتے ہیں۔ مشاعرے میں رسوا اور ادا کی ملاقات کے بعد کہانی شروع ہوتی ہے۔ کہانی فطری رفتار سے آگے بڑھتی ہے۔ اغوا کے وقت ایک کم سن لڑکی یعنی امراء کی نفسیاتی حالت اس کی دہشت اور اس کے خیالات خود اس کی زبانی معلوم ہونے لگتے ہیں۔ ادا خانم کے ہاتھ فروخت ہوتی ہے۔ اس طرح وہ ایک بالکل نئی اور بالکل مختلف دنیا میں پہنچ جاتی ہے۔ یہ دنیا بہت زیادہ وسیع اور پیچیدہ ہے۔ نئے نئے اور مختلف مزاج کے حامل افراد سے سابقہ پڑتا ہے۔ خانم اور بواحسینی اس کی تعلیم وتربیت کا انتظام کرتے ہیں۔ اسی دوران میں بچپن سے جوانی کی منزل میں پہنچ جاتی ہے۔ گو ہر مرزا جو خانم کے چھکے کا پروردہ تھا ادا کا سب سے پہلے دوست بن جاتا ہے۔ ادار رفتہ رفتہ با قاعدہ طوائف بن جاتی ہے بنادی جاتی ہے۔ امیران سے امراؤ جان بنے تک ادا کی جو ساری نفسیاتی حالتیں اور کیفیتیں رہتی ہیں وہ پوری فن کارانہ چابک دستی سے بیان کی گئی ہیں۔ اس پورے حصے میں رسوانے شاہد رعنا‘ سے فائد ہ اٹھایا ہے۔ طوائف بنے کے بعد ادا کو اپنی صلاحیتوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کی خود اعتمادی کو یقین کے درجے تک پہنچانے والے اس کے چاہنے والے تھے۔ خانم کے چکلے میں ادا کی انفرادیت پوری طرح ابھر کر سامنے آتی ہے۔ ادا کی طبیعت کی شائستگی، وضع داری سنجیدگی ٹھہراو ایک خاص پندار، رچا ہوا ادبی ذوق شعر گوئی اور ایک خاص شریفانہ انداز اسے تمام طوائفوں میں منفر د کر دیتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود خانم کے چکلے کی مختلف طوائفوں کو پیش کرتے ہوئے ان کی انفرادیت کو پوری طرح نمایاں کیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں بھی رسوا نے شاہد رعنا‘ سے اخذ اور استفادہ کیا ہے۔ امراؤ جان کے بعد بسم اللہ جان کا شوخ و شنگ کر دار طالب توجہ بن جاتا ہے۔ یہ خانم کی لڑکی ہے اس وجہ سے مکمل طوائف ہے۔ خانم کی بیٹی ہونے کی وجہ سے چکلے میں اس کی سب سے زیادہ اہمیت ہے۔ اس وجہ سے ایک انا پیدا ہو گئی ہے۔ وہ اپنی خود بینی کی وجہ سے دلچسپ بن گئی ہے۔ اور چونکہ خانم کی خاص تربیت کا نتیجہ ہے۔ اس لیے ہر لحاظ سے " معشوقہ عشق پیشہ ہے۔ وہ بے مروت ہے سفاک ہے بے رحم ہے۔ اپنے عاشقوں کو کھلونا سمجھتی ہے انھیں بیوقوف بنانے کا ہنر جاتی ہے۔ انھیں ہر طرح سے لوٹتی ہے اور یوں ایک پکی طوائف ہے۔ اس کے برخلاف خورشید جان ہے جو بے حد خوبصورت ہونے کے باوجود بازار کے نرخ پر اپنا حسن نہیں بیچتی ۔ اس کے مزاج میں گھریلو پن ہے وہ محبت کی پیاسی ہے۔ وہ ایک طوائف سے زیادہ بیوی بنے کے لائق ہے۔ اس کے ساتھ بیگم جان بھی ہے اور امیرن جان بھی۔ بیگم جان کی بدصورتی کی تلافی اس کی خوش گلوئی سے ہو جاتی ہے۔ امبرن جان اپنی نزاکت کی وجہ سے سب سے علاحدہ نظر آتی ہے۔ اس چکلے کی محور و مرکز خانم ہے جو ساری طوائفوں کو اپنے قابو میں رکھتی ہے۔ ان کی تعلیم و تربیت کرتی ہے۔ وہ بہت جہاں دیدہ ہے۔ وہ موسیقی کی باریکیوں سے واقف ہے اور اگر استاد جی سے بھی کہیں غلطی ہو جاتی ہے تو فوراً انھیں ٹوک دیتی ہے۔ خانم کی امیرن کو امراؤ پھر امراؤ جان اور بعد میں امراؤ جان ادا بنا دیتی ہے۔ بوا حسینی خانم کی مددگار اور ساتھی ہے۔ بواحسینی امراؤ جان کو خانم سے مانگ لیتی ہے۔ اور اپنی ممتا کے جذبے کو آسودہ کرتی ہے بیٹی کی طرح ادا کو چاہتی ہے اور اس کی پرورش کرتی ہے۔ بواحسینی سے جو کسی زمانے میں مولوی صاحب کی راہ و رسم تھی ۔ دونوں میں مزے کی باتیں ہوتی تھیں ۔ ادا اور اس کی ساتھیوں کی تعلیم بھی پابندی سے ہوا کرتی تھی۔ ان کرداروں کے ساتھ امراؤ کے ملنے والے بھی ہیں ۔ راشد علی ہیں، نواب سلطان وجاہت کے ساتھ بردباری بھی رکھتے ہیں۔ اس کے بر خلاف خان صاحب ہیں اجڈ،لٹھ مار،وہ نواب سلطان سے الجھ پڑتے ہیں اور اس قدر بد تمیزی سے پیش آتے ہیں کہ نواب سلطان کو پستول سے ان کی خبر لینی پڑتی ہے۔ فیضو ڈاکو بھی امراؤ جان پر فریفتہ ہے وہ امراؤ جان کو دو مہینے کے لیے لے جانا چاہتا ہے لیکن خانم بڑی سے بڑی رقم پر بھی امراؤ کو جانے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں تھی۔ لیکن خود امراؤ جان' فیضو کے سلوک چاہت سے متاثر ہو کر خانم کی چوری سے اس کے ساتھ جاتی ہے۔ نواب جعفر علی خاں ہیں جو ستر سال کے ہو گئے ہیں لیکن خانم کو ملازم رکھتے ہیں۔ کیونکہ یہ بھی نوابی کی شان میں شامل تھا۔ ان تمام کرداروں کے آنے سے پلاٹ میں پیچیدگی پیدا ہوتی ہے۔ کہانی میں دلچسپ الجھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے اس الجھن اور پیچیدگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ ویسے ویسے کہانی میں دلچسپی بڑھتی جاتی ہے۔ کہانی پلاٹ اور کرداروں کا ارتقا فطری رفتار کے ساتھ نقطۂ عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ اس فطری رفتار سے کہانی اپنے انجام تک پہنچتی ہے۔ امراؤ جان غائب ہو جاتی ہے۔ کسی اور کے نہیں اپنے ہی گھر بیٹھ جاتی ہے۔

اس ناول کی ایک اور نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زندگی کے بارے میں ایک جچا تلا فلسفہ ملتا ہے۔ جو اس ناول کو انفرادی شان بخشتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ کہا گیا ہے کہ کوئی بھی ادیب اس وقت تک بڑا نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کا اپنا کوئی بڑا فلسفہ نہ ہو۔ رسوا کو فلسفے سے ایک فطری ذوق ہمیشہ سے تھا۔ اس فلسفیانہ ذوق نے ان میں ایک فلسفیانہ نقطہ نظر پیدا کر دیا۔ اس نقطہ نظر کو نفسیاتی باریک بینی اور علمی انداز نے اور فروغ دیا۔ سائنس سے ان کی غیر معمولی دلچسپی نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ ان تمام باتوں نے رسوا کے نقطہ نظر میں بڑی وسعت اور بڑی گہرائی اور لچک پیدا کر دی تھی۔ یہی نقطہ نظر اس ناول میں ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس میں مذہبی اور اخلاقی پہلو بھی ملتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود متعصبانہ انداز میں زندگی کی کسی بات کو دیکھتا ہے نہ دکھاتا ہے۔ اس طرح اس نقطہ نظر میں ایک سائنٹیفک انداز میں شامل رہتا ہے جس میں چیزوں کی تحلیل و تجزیہ کر کے اصلی ما دیت تک پہنچنے کی کوشش کی جاتی ہے رسوا کا زندگی کے بارے میں یہ زاویہ نگاہ انھیں اپنے تمام پیش رو ناول نگاروں سے علاحدہ کر کے ممتاز بنادیتا ہے۔ وہ بری چیز کو برا کہہ کر منھ نہیں پھیر لیتے بلکہ برائی کو پیدا کرنے والے محرکات کا پوری طرح تجزیہ کرتے ہیں اور یہ دیکھتے ہیں کہ یہ برائی کیسے اور کیوں پیدا ہوئی۔ امراؤ جان ادا میں ان کا یہ نقطۂ نظر اگر غور کیا جائے تو صاف طور پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے دکھایا ہے کہ انسانی فطرت خیر وشر کی آماجگاہ ہے۔ یہ حالات و واقعات ہوتے ہیں جو کسی انسان کو برے راستے پر چلنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور یہی اچھے راستے پر ڈال دیتے ہیں ۔ یہ بات انھوں نے راست طور پر نہیں کہی ہے۔ امیرن ایک شریف گھرانے کی لڑکی امراؤ جان یعنی طوائف اس لیے بن جاتی ہے کہ ایک غنڈہ اس کا اغوا کر لیتا ہے اور طوائفوں کے کوٹھے پر فروخت کر دیتا ہے۔ رام دئی بھی ایک شریف گھرانے کی لڑکی ہے اور اس کا بھی اغوا وہی شخص کرتا ہے جس نے امیرن کا اغوا کیا تھا۔ لیکن وہ اسے ایک اچھے اور امیر گھرانے میں فروخت کر دیتا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک نواب کی بیوی بن جاتی ہے اور ایک شریف بیگم کی عزت حاصل کرتی ہے۔ یوں مرزا رسوا کا نقطہ نظر اور فلسفہ حیات امراؤ جان ادا" میں صاف طور پر سامنے آتا ہے۔

امراؤ جان ادا میں جہاں بہت سی خوبیاں ہیں وہیں بعض خامیاں بھی ہیں۔ ان خامیوں کو پیدا کرنے کے دو اہم اسباب ہیں۔ پہلی وجہ تو یہ کہ انھیں اس بات کا بخوبی انداز و تھا کہ وہ شاہد رعنا " سے بہت کچھ اخذ کر رہے ہیں ۔ اس لیے انھوں نے اپنے ناول کو جہاں تک ممکن ہو سکا شاہد رعنا " سے الگ اور مختلف بنانے کی کوشش کی۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ انھوں نے ناول نگاری کی طرف سنجیدگی سے توجہ نہیں کی۔ ان کے لیے ناول نگاری کچھ پیسے حاصل کرنے کا ذریعہ تھی۔ اس وجہ سے امراؤ جان ادا میں بعض ایسی کمزوریاں رہ گئی ہیں جو نظر ثانی سے آسانی سے دور ہوسکتی ہیں۔ مشاعرے بعض جگہ ضرورت سے زیادہ طویل ہیں ۔ خان صاحب کا امراؤ جان کے کمرے میں گھس آنا اور سلطان نواب سے ان کی بحث و تکرار کا اس قدر بڑھ جانا کہ نواب کو پستول چلانا پڑتا ہے جب کہ نواب نے آنے سے پہلے یہ کہلا بھیجا تھا کہ وہ اسی وقت آئیں گے جب تخلیہ " ہو گا۔ خانم جیسی ہوشیار اور چالاک نائکہ کے کوٹھے پر ایسی واردات کا پیش آنا قرین قیاس نہیں ہے۔ مشاعرے اور خان کا واقعہ شاہد رعنا " سے مختلف بنانے کے لیے ناول میں بھرتی کیا گیا۔ غدر کا ذکر بھی کچھ اسی سبب سے ہے۔ اس لیے کہ غدر ہندوستان کی تاریخ کا نہایت ہی اہم واقعہ تھا۔ جس کی وجہ سے سارے ہندوستان میں انقلابی تبدیلیاں آئیں۔ لیکن رسوا اپنے ناول میں غدر سے پہلے اور غدر کے بعد کی زندگی میں کوئی تبد یلی پیش کرنے سے قاصر رہے ہیں ۔ اس وجہ سے غدر کا ذکر غیر ضروری معلوم ہوتا ہے۔ ایک اور واقعہ امراؤ جان اکبرعلی کے گھر بیٹھ جاتی ہے۔ وہاں سے وہ پھر کیوں نکل جاتی ہے۔ اس کی کوئی خاص وجہ انھوں نے نہیں بتائی ہے۔ یہ واقعہ بھی اپنے ناول کو شاہد رعنا“ سے مختلف بنانے کے لیے بیان ہوا ہے۔ شاہد رعنا کی ننھی جان ہمیشہ کے لیے ایک صاحب کے گھر بیٹھ جاتی ہے۔ اپنی ناول نگاری سے بے توجہی کی سب سے روشن مثال مولوی کے حلیے کا تیسرے ہی صفحہ پر بدل جانا ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود امراؤ جان ادا نہ صرف رسوا کا شاہکار ہے بلکہ اردو کے بہترین ناولوں میں اس کا ایک ممتاز مقام ہے۔

No comments:

Post a Comment