رحال مسکن مکن تغافل کی تشریح

URDU DARASGAH
0

Zehaal e muskin
زحالِ مسکن مکن تغافل 

 امیر خسررحمۃاللہ سے منسوب یہ غزل ندرت  تخیل کا عمدہ  نمونہ ہے اس غزل کے ہر شعر کا پہلا مصرع فارسی اور دوسرا اس زمانے کی ریختہ (اردو) میں ہے۔

زحالِ مسکیں  مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں

کہ تابِ ہجراں ندارم اے جان نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں

تشریح:اے میرے محبوب اس غریب کے حال سے رنجش نہ کر، آنکھیں پھیر کر، باتیں بنا کراب جدائی  برداشت  کرنے کی ہمت مجھ میں نہیں ہے ، مجھے اپنے سینے سے کیوں نہیں لگا لیتے۔یعنی مجھے اپنانے کی کوشش کرو 

شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ

سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

ترجمہ:

اے دوست جدائی کی یہ راتیں زلف کی طرح لمبی اور ملاقات کے دن عمر کی طرح مختصر ہے محبوب کو دیکھے بغیر یہ اندھیری  اور لمبی راتیں کیسے کاٹوں میں۔ گویا شاعر کے لیے جدائی ماقبل برداشت  ہے

یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

تشریح: پلک جھپکتے ہی وہ دو جادوئی آنکھیں میرے دل کا سکون  اور چین لوٹ لے گئی  اب کون جا کر ہمارے محبوب کو ہمارا حالِ دل (باتیں) سنائے کہ میں محبوب کے عشق کا طرح بے حال ہوا ہوں

چوں شمعِ سوزاں،چوں ذرہ حیراں،ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما

نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں۔ 

تشریح: میں اس عشق میں جلتی ہوئی شمع کی اور ذرۂ حیراں کی طرح ہمشیہ فریاد کر رہا ہوں  نہ  آنکھوں میں نیند، نہ تن کو چین ۔ نہ تو وہ خود آتا ہیں اور نہ ہی کوئی وصال کا  پیغام بھیجتا ہیں

بحقّ ِروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو

سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں

تشریح:شاعر اپنے آپ سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں خسرو تو  اس سے ملنے کی امید میں بیٹھا ہے؟ جس کی یاد نے تجھ ہر چیز سے بیگانہ کر دیا ہے.


امیر خسرو

Tags

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)