جنوں نے تماشا بنایا ہمیں
رہا دیکھ اپنا پرایا ہمیں
سدا ہم تو کھوئے گئے سے رہے
کبھو آپ میں تم نے پایا ہمیں
یہی تا دم مرگ بیتاب تھے
نہ اس بن تنک صبر آیا ہمیں
شب آنکھوں سے دریا سا بہتا رہا
انہیں نے کنارے لگایا ہمیں
ہمارا نہیں تم کو کچھ پاس رنج
یہ کیا تم نے سمجھا ہے آیا ہمیں
لگی سر سے جوں شمع پا تک گئی
سب اس داغ نے آہ کھایا ہمیں
جلیں پیش و پس جیسے شمع و پتنگ
جلا وہ بھی جن نے جلایا ہمیں
ازل میں ملا کیا نہ عالم کے تیں
قضا نے یہی دل دلایا ہمیں
رہا تو تو اکثر الم ناک میرؔ
ترا طور کچھ خوش نہ آیا ہمیں
تشریح
جنوں نے تماشا بنایا ہمیں
رہا دیکھ اپنا پرایا ہمیں
جنون ۔دیوانگی ، تماشا ۔کھلونا ، اپنا۔ رشتہ دار عزیز ۔پرایا ۔غیر
میر تقی میر اس شعر میں کہتے ہیں۔ کہ دیوانگی کی بیماری کی وجہ سے لوگ مجھے کھلونا سمجھتے ہیں۔ جس طرح بچہ کھلونے کے ساتھ کھیلتا رہتا ہے اسی طرح لوگ کھلونا بنا کر مجھے طرح طرح کے ظلم کر کے شکار بناتے ہیں۔ اور میری دیوانگی کی بیماری کا کوئی علاج کرنے والا نہیں چارہ نہیں۔ جو میرے عزیز پیارے رشتہ دار تھے۔ انہوں نے بھی میرے ساتھ بُرا سلوک کیااور جو عزیز تھے اُن سے مجھے کوئی گلہ نہیں۔ مجھے دیوانہ سمجھ کر پتھر مارتے تھے۔ اس شعر میں میر نے اپنی جنون کی بیماری کے دنوں میں لوگوں کے سلوک کے بارے میں شکوہ کیا ہے۔
سدا ہم تو کھوئے گئے سے رہے
کبھو آپ میں تم نے پایا ہمیں
سدا ۔ہمیشہ ،کھوئے گئے ۔ بے ہوش اور بے خود ہوتے گئے ، کبھو۔ کبھی، آپ میں پایا ۔ اپنے ہوش میں پایا،
تشریح : شاعر کہتا ہے اے میرے پیارے میں ہمیشہ تیرے عشق و محبت میں کھویارہا اور میری ساری جوانی تیری محبت میں گزری۔ وصال نصیب نہ ہوا۔ اے پیارے کیا کبھی تو نے غور کیا کہ میں اس جنون اور دیوانگی کی بیماری کا کیوں شکار ہو گیا کہ یہ سب کچھ تیری محبت کا نتیجہ تھا۔ آج میں اگر دیوانہ ہوں اور دیوانگی کے عالم میں اپنی زندگی بسر کر رہا ہوں اس کی وجہ صرف تیری محبت ہے۔ مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ تمہیں میری اس دیوانگی کا احساس نہیں ۔ جس کی وجہ سے میری دیوانگی میں اور اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ اگر تم میری دیوانگی کا علاج چاہتے ہو تو وصال کا وعدہ پورا کرو۔
یہی تا دم مرگ بیتاب تھے
نہ اس بن تنک صبر آیا ہمیں
۳- تا دم مرگ ۔ مرتے وقت تک ، بیتاب۔ بے چین ۔اضطراب، بن ۔بغیر، تنگ صبر۔بے صبر
تشریح : میر تقی میر کہتے ہیں کہ میری زندگی میں ہمیشہ بیتابی پائی جاتی تھی۔ اور یہ خوبی مرتے دم تک میرے ساتھ رہی ۔ اس کی یہ وجہ ہے کہ مجھے اپنے محبوب کے بغیر کبھی صبر نہ آیا۔ہماری بیتابی میں یہی راز مضمر ہے ۔ جس کو کسی نے سمجھنے کی کوشش نہ کی۔
شب آنکھوں سے دریا سا بہتا رہا
انہیں نے کنارے لگایا ہمیں
شب۔ رات ، دریاسا - دریا کی طرح ،بہتا رہا۔ آنسو بہتے رہے ، کنارے لگانا۔دریا کے پار لگانا ۔
تشریح۔ میر تقی میر کہتے ہیں کہ میں نے آج تک کافی کوشش کی کہ اس پیارے محبوب کے دل پر کچھ اثر ہو ۔ آہ وزاری کرتا رہا ۔ نالہ و فریاد بھی بے سود ثابت ہوئے۔ اب کے بار آج رات میں کافی رویا اور میری آنکھوں اتنے آنسو بہے کہ ایک دریا سا بن گیا۔ اس دریا میں میری عشق و محبت کی کشتی پار لگ گئی۔ اور ان کو میری حالت زار پر پیار آ ہی گیا۔
بقول جگر مراد آبادی
دل کچھ اس صورت سے تڑپا اُن کو پیار آ ہی گیا
ہمارا نہیں تم کو کچھ پاس رنج
یہ کیا تم نے سمجھا ہے آیا ہمیں
تشریح۔ میر فرماتے ہیں کہ اے محبوب تمہیں میرے محبت کی کوئی قدر نہیں ہے اور نہ ہی میری بے چینی اور دکھوں کا کوئی پاس و لحاظ ہے گویا تم نے آج تک میرے محبت کو سمجھا ہی نہیں
لگی سر سے جوں شمع پا تک گئی
سب اس داغ نے آہ کھایا ہمیں
جوں - مانند، پا - پاؤں ، آہ ۔آہ وزاری
میر تقی میر کہتے ہیں کہ اُس پیارےکے عشق و محبت نے مجھے اس طرح سر سے پاؤں تک کاٹ کھایا ۔ آہ وزاری نے میرے سارے بدن میں داغ پیدا کیے جس کی وجہ سے میرا سارا جسم سر سے پاؤں تک شمع کی طرح پگھل گیا۔
جلیں پیش و پس جیسے شمع و پتنگ
جلا وہ بھی جن نے جلایا ہمیں
پیش۔ پہلے، پس۔ پیچھے ، پتنگ - پروانہ ،
تشریح: میر تقی میر فرماتے ہیں کہ میرا محبوب جس نے مجھے عمر بھر ستایا میرے جلنےسے خوش ہوتا رہا۔ مگر آخر کار میری عشق کی جلن نے بھی اس پر اثر کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ اگر میں پہلے جلا تو وہ بعد میں جل گیا ۔ جس طرح پتنگ شمع کے گرد گھوم کر اپنی زندگی قربان کر دیتا ہے۔ اور شمع بھی پگھل کر قربان ہو جاتی ہے۔ جس نے ہمیں جلایا اس کو بھی آخر سزا مل گئی۔
ازل میں ملا کیا نہ عالم کے تیں
قضا نے یہی دل دلایا ہمیں
ازل - آغاز - ابتدا ، عالم - دنیا، قضا - تقدیر
تشریح :۔ میر تقی میر کہتے ہیں کہ قدرت نے تمہیں پیدا کر کے ہمارے دل میں عشق کا جذبہ پیدا کیا کیونکہ ہماری تقدیر میں لکھا گیا تھا۔ اور دل سے اس جذبے کو نہیں نکالاگیا یہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہا۔ اور زندگی کا آغاز اس سے ہوا تھا۔
رہا تو تو اکثر الم ناک میرؔ
ترا طور کچھ خوش نہ آیا ہمیں
الم ناک ۔ غمگین ، طور۔ طریقہ ، خوش ۔ پسند،
تشریح : میر تقی میر فرماتے ہیں کہ میں اکثر دنیا میں غمگین رہا۔ رنج دیکھے۔ دکھ اٹھائے۔ مگر اے محبوب تمہارا طریقہ مجھے پسند نہیں آیا۔ تمہارا سلوک میرے ساتھ اچھا نہ رہا کاش تم میرے دکھ کو سمجھ جاتے تو یہ دن نہ دیکھنے پڑتے۔
No comments:
Post a Comment