Mohammad Hussain Azad |
محمد حسین آزاد
حالات زندگی
محمدحسین نام، آزاد تخلص۱۸۳۳ء میں دلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی محمد باقر اچھے عالم اور اہل قلم بزرگ تھے ۔ اور اپنے علم و فضل کی وجہ سے اپنے ہمعصروں میں عزت کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب سرزمین دہلی میں ذوق ، مومن ، غالب جیسے شعراء کی بدولت شاعری میں بڑی دھوم تھی اور ان باکمالوں کی تربیت ہر شخص کے لئے یکساں تھی۔ محمد ابراہیم ذوق آزاد کے والد مولوی باقر کے دلی دوست تھے۔ اس تعلق کی بناء پر جب آزاد نے ہوش سنبھالا تو ان کے والد نے انھیں ذوق کے حوالے کر دیا، آزاد نے ان سے تعلیم پائی۔ اس کے بعد آزاد اعلیٰ تعلیم کے لئے دہلی کالج میں داخل ہوئے۔ جہاں مولوی نذیر احمد، ذکاء اللہ اور پیارے لال آشوب جیسے ساتھیوں کے ساتھ مروجہ علوم کی تحصیل کی ۔
آزاد کو شروع سے شعر و شاعری سے دلچسپی تھی۔ اس پر ذوق ایسے استاد کی تربیت نے سونے پر سہاگہ کا کام کیا۔ آزاد نے ان کے ہمراہ دہلی کے اکثر معرکۃ الآرا مشاعروں میں شرکت کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آزاد بہت جلد استاد ذوق کے کلام کی پختگی، خیالات کی رفعت سنجیدگی اور قدرت بیان و زبان سے بہرہ ور ہو گئے۔ آزاد تقریباً ۲۵ سال کے تھے کہ ۱۸۵۷ء کا حادثہ پیش آیا۔ اس ہنگامہ میں مولوی محمد باقر شہید ہوئے۔ گھربار لٹا۔ جانی اور مالی نقصانات کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان آزاد کے لئے یہ ہوا کہ استاد کا سارا کلام تلف ہوا، جسے وہ ذوق کے مرنے کے بعد کلیجے سے لگاتے رہتے تھے۔اس کے بعد آزاد نے کاروبار کی تلاش کے سلسلے میں لکھنو کا سفر کیا۔ مگر وہاں بھی علم وادب کا بازار سویا پڑا تھا۔ پھر کشمیر کا رخ کیا۔. چند دن کے لئے ایک اسکول میں معلم بن گئے۔ آخر ۱۸۶۴ء میں لاہور میں ملازم ہو گئے میجر فلر کے ساتھ ان کا تعلق ہوا، اور آزاد کو اپنی فطری صلاحیت دکھانے کا موقع ملا۔ انھیں کابل اور بخارا بھیجا گیا۔ ۱۸۸۷ء میں ملکہ وکٹوریہ کی جو بلی کے موقع پر انھیں شمس العلماء کا خطاب عطا ہوا۔ اس طرح لاہور آ کر آزاد کی قسمت کا ستارہ چمکا۔ سرکاری اور عوامی علمی حلقوں میں ان کی بڑی قدر منزلت ہوئی ۔ ان کی سرکاری خدمات مختلف قسم کی ہیں۔ گورنمنٹ کالج لاہور میں عربی، فارسی کے پروفیسر ہوئے۔ اس کے علاوہ سرکاری اخبار" اتالیق" کے مدیر بھی رہے پھر پنجاب میگزین کے بھی مدیر ہوئے ۔ ۱۸۸۳ء میں وہ فارسی زبان کی لسانی تحقیقات کے سلسلے میں ایران گئے اور وہاں سے نہ صرف اپنی ضروری علمی تحقیقات کے لئے مواد فراہم کر کے واپس ہوئے۔ بلکہ ساتھ میں جدید فارسی بول چال کی زبان بھی سیکھ لی لیکن افسوس چند سال بعد ان کی ہو نہار، لاڈلی اکلوتی بیٹی جسے انھوں نے اعلیٰ تعلیم دلوائی تھی۔ انتقال ہو گیا۔ یہ حادثہ آزاد سے برداشت نہ ہو سکا۔ اور آخر ۲۲ جنوری ۱۹۱۰ء کو انتقال کیا۔
علمی اور ادبی کارنامے آزاد نے نظم و نثر دونوں اصناف میں نام پیدا کیا لیکن نثر نگاری میں آزاد نے تو کمال ہی پیدا کر دیا۔ نثر میں آب حیات ،دربار اکبری ، سخندان پارس - نگارستان فارس، نیرنگ خیال نے اگر تمثیل نگاری کی کمی کو پورا کیا۔ آب حیات نے تذکرہ نگاری اور تنقیدی فرائض انجام دیئے ہیں۔ آزاد کے زمانے میں عبارت آرائی کا بڑا زور و شور تھا۔ اس زمانے میں زنگین طرز عبارت لکھی جاتی تھی۔
اسلوب: ان کی تحریر میں عربی کی جامعیت ، فارسی کی شان و شوکت اور ہندی کی بے تکلفی اور سادگی اور انگریزی الفاظ بے ساختہ استعمال ہوتے ہیں تمثیل نگاری اور تمثیلی مضامین کے لئے آپ کا انداز بیان انوکھا اور نرالا ہے ۔ لوگوں نے کافی کوشش کی مگر یہ طرز بیان پیدا نہ ہو سکا۔ آزاد کی عبارت میں حسن ، سادگی ، شگفتگی سب کچھ موجود ہے۔ یہاں شوخی ، زنگینی ، سادگی اور پر کاری ہے ۔ گو عبارات تشبیہ واستعارات سے بھری ہے پھر بھی پانی کی سی روانی ہے۔ اور عربی فارسی اور انگریزی بھاشا کی ملاوٹ سے عجیب چاشنی پیدا ہوگئی ہے ۔ آزاد نے ایک نئے اور منفرد انداز تحریر کو اختیار کیا ، جوکسی اورسےبن نہ سکا ، آزاد کی نثر مرصع اور سادہ اسلوب کے امتزاج کی عمدہ مثال ہے۔ آزاد کی نثر شاعرانہ اور تاثراتی ہوتی ہے۔ جو مرقع نگاری اور انشائیہ نگاری کے لئے بہت ہی موزون و مناسب ہے آزاد غیر مانوس الفاظ اور ترکیبوں کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ ان کی نثر میں ایک موسیقی ہے لطیف استعارے اور خوبصورت تشبیہیں اس کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں ۔ آزاد کے مضامین میں طرح طرح کے زندگی کے پہلو نظر آتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment