تازہ ترین

Monday, May 16, 2022

گلوں میں رنگ بھر دے بادِ نو بہار چلے تشریح || فیض احمد فیض

 

گلوں میں رنگ بھر دے بادِ نو بہار چلے

غزل نمبر 1(فیض احمد فیض)

۱۔گلوں میں رنگ بھر دے بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اے میرے محبوب بہار کا موسم آچکا ہے ہر طرف دلفریب مناظر اور پھولوں کی خوشبوئیں  زمین کو معطر کر رہی ہے مگر میرے لیے تمہاری غیر موجودگی  میں یہ بے معنی ہے ۔ اسلیے اب آجائیں   تاکہ میں اس دلفریب موسم کا مزا اٹھا سکوں ۔

۲۔قفس اداس ہیں یارو صبا سے کچھ تو کہو

کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

تشریح : شاعر کو قید خانے میں اپنے محبوب وطن کی یاد آتی ہے اسلیے اپنے دوستوں سے کہتا ہے کہ اے دوستو! اس صبح کی ہوا سے پوچھو کہ میرے محبوب وطن کا کیا حال ہے کیونکہ یہ تر و تازہ ہوا ضرور میرے وطن سے گزر کر آئی ہوگی ۔

۳۔کبھی تو صبح تیرے کنج لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب ِسر کاکل سے مشکبار چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ میں اس امید سے زندہ ہوں کہ  وہ مبار ک دن میری زندگی میں ضرور  آئینگے۔ جب میر ی صبح کا آغاز تیری ہونٹوں کی حسین مسکراہٹ سے ہوگی  اور میری شام تیری زلفوں کی خوشبو سے معطر ہوگی

۴۔ بڑا ہے درد کا  رشتہ یہ دل غریب سہی

تمھارے نام پر آئیں گے غمگسار چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ میرا اپنے  محبوب وطن  کے ساتھ بڑا گہرا رشتہ ہے  ۔ اسلیے جب بھی اس کو میری ضرورت ہوگی میں اس کی خدمت کے لیے دوڑے چلے آؤں گا ۔

۵۔جو ہم پہ گزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ وطن سے جدائی کی رات بڑی کھٹن گزری  اس جدائی کی رات میں میری آنکھوں نے وطن کے لیے کافی آنسوں بہائے  او ر  یہ آنسوں رائیگان نہیں جائیں گے بلکہ ان سے میرے  وطن کا مستقبل  سنور جائے گا۔

۶۔ حضور یار ہوئی دفتر جنون کی طلب

گرہ میں لے کے گریبان کا تار تار چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ  جب میرے محبوب کے حضور میری طلبی  ہوئی  اور میری دیوانگی کا ثبو ت مانگا گیا  ۔ تو میں نے اپنا پھٹا ہوا گریبان پیش کیا  کیوں کہ میرے پاس میری وفاداری اور دیوانگی کا صرف یہی وا حد ثبوت تھا ۔ مطلب یہ کہ ہم نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اب میرے پاس کچھ نہیں بچا ہے ۔

۷۔مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے در چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اس زندگی  کے سفر میں مجھے کوئی پُر سکون مقام ملا ہی نہیں ،ایک طرف محبوب کے در سے اُٹھا یا گیا  تو دوسری طرف میرا رخ قید خانے کی طر ہو گیا غرض اس زندگی میں مجھے آرام اور سکون نصیب نہیں ہو سکا ۔

No comments:

Post a Comment