تازہ ترین

Sunday, May 15, 2022

فیض احمد فیض کی حالات زندگی

 

فیض احمد فیض 

فیض احمد فیض کی حالات زندگی

حالات زندگی: فیض کا پورا نام فیض احمد اورفیضؔ  ہے۔  ١٣ فروری ١٩١١ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے ولد کا نام سلطان محمد خان تھا اور والدہ کا نام فاطمہ تھا ۔آپ کے والد ایک علم دوست اور نامور وکیل بھی تھے ۔ فیض نے میٹرک تک اسکاچ مشن اسکول سیالکوٹ میں تعلیم پائی ۔ اسکے بعد مرے کالج سیالکوٹ سے  ایف ۔اے  کا امتحان پاس کیا ۔ پھر گورنمنٹ کالج لاہور سے بی۔اے اور ایم اے انگریزی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ اسکے علاوہ اوینٹل کالج لاہور سے عربی میں ایم اے بھی کیااسکے بعد پہلےایم ۔او ۔اے امرتسر کالج  اور پھر  ہیلی کالج لاہور میں لکچرر مقرر ہوئے ۔1941ء میں آپ کی شاد ی ایک برطانوی خاتون جارج ایلس سے ہوئی تھی۔ 1942 ء میں بحیثیت کپٹن فوج میں  تعینات ہوئے اور لیفٹنینٹ عہدے تک ترقی پائی ۔ لیکن 1946 ء میں مستعفی ہو کر لاہور چلے گئے۔اسکے بعد پاکستان ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ٹریڈیس یونین کے نائب صدر بھی رہے ۔اپنے آزادانہ افکار کے سلسلے میں آپ کو چارقید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلنی پڑی  ۔قید سے رہائی کے بعد آپ نے لندن میں جلاوطنی اختیار کر لی اور لندن میں اپنے خاندان سمیت رہائش پزیر رہے۔ فیض نے جلاوطنی کی زندگی گزارتے ہوئے ایک شعر میں کہا:

فیض نہ ہم یوسف نہ کوئی یعقوب جو ہم کو یاد کرے 

 اپنا کیا کنعاں میں رہے یا مصر میں جا آباد ہوئے

لندن سے واپسی کے بعد  عبداللہ ہارون کالج کراچی کے پرنسپل کے عہدے پر فائز ہوئے ۔ فیضؔ نے اپنی شاعری کارناموں پر بہت سے اعزاز ات حاصل کیں جن میں حکومت روس کا اعلیٰ اعزاز بھی شامل ہے ۔ 20نومبر 1984ء کو انتقال کر گئے۔

فیض کے شاعری مجموعے:

نقش فریادی،دست صبا،زنداں نامہ، دست تہ سنگ ،سر وادی سینا ، شام شہر یاراں، مرے دل مرے مسافر، نسخہ ہائے وفا 

غزل نمبر 1(فیض احمد فیض)

۱۔گلوں میں رنگ بھر دے بادِ نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اے میرے محبوب بہار کا موسم آچکا ہے ہر طرف دلفریب مناظر اور پھولوں کی خوشبوئیں  زمین کو معطر کر رہی ہے مگر میرے لیے تمہاری غیر موجودگی  میں یہ بے معنی ہے ۔ اسلیے اب آجائیں   تاکہ میں اس دلفریب موسم کا مزا اٹھا سکوں ۔

۲۔قفس اداس ہیں یارو صبا سے کچھ تو کہو

کہیں تو بہر خدا آج ذکر یار چلے

تشریح : شاعر کو قید خانے میں اپنے محبوب وطن کی یاد آتی ہے اسلیے اپنے دوستوں سے کہتا ہے کہ اے دوستو! اس صبح کی ہوا سے پوچھو کہ میرے محبوب وطن کا کیا حال ہے کیونکہ یہ تر و تازہ ہوا ضرور میرے وطن سے گزر کر آئی ہوگی ۔

۳۔کبھی تو صبح تیرے کنج لب سے ہو آغاز

کبھی تو شب ِسر کاکل سے مشکبار چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ میں اس امید سے زندہ ہوں کہ  وہ مبار ک دن میری زندگی میں ضرور  آئینگے۔ جب میر ی صبح کا آغاز تیری ہونٹوں کی حسین مسکراہٹ سے ہوگی  اور میری شام تیری زلفوں کی خوشبو سے معطر ہوگی

۴۔ بڑا ہے درد کا  رشتہ یہ دل غریب سہی

تمھارے نام پر آئیں گے غمگسار چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ میرا اپنے  محبوب وطن  کے ساتھ بڑا گہرا رشتہ ہے  ۔ اسلیے جب بھی اس کو میری ضرورت ہوگی میں اس کی خدمت کے لیے دوڑے چلے آؤں گا ۔

۵۔جو ہم پہ گزری مگر شب ہجراں

ہمارے اشک تیری عاقبت سنوار چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ وطن سے جدائی کی رات بڑی کھٹن گزری  اس جدائی کی رات میں میری آنکھوں نے وطن کے لیے کافی آنسوں بہائے  او ر  یہ آنسوں رائیگان نہیں جائیں گے بلکہ ان سے میرے  وطن کا مستقبل  سنور جائے گا۔

۶۔ حضور یار ہوئی دفتر جنون کی طلب

گرہ میں لے کے گریبان کا تار تار چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ  جب میرے محبوب کے حضور میری طلبی  ہوئی  اور میری دیوانگی کا ثبو ت مانگا گیا  ۔ تو میں نے اپنا پھٹا ہوا گریبان پیش کیا  کیوں کہ میرے پاس میری وفاداری اور دیوانگی کا صرف یہی وا حد ثبوت تھا ۔ مطلب یہ کہ ہم نے اپنے مقصد کے حصول کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں اب میرے پاس کچھ نہیں بچا ہے ۔

۷۔مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے در چلے

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اس زندگی  کے سفر میں مجھے کوئی پُر سکون مقام ملا ہی نہیں ،ایک طرف محبوب کے در سے اُٹھا یا گیا  تو دوسری طرف میرا رخ قید خانے کی طر ہو گیا غرض اس زندگی میں مجھے آرام اور سکون نصیب نہیں ہو سکا ۔

غزل نمبر ۲

۱۔کب ٹھہرے گا درد کب رات بسر ہوگی

سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سَحر ہو گئی

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں  اپنے دل سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں  کہ اے دل کب تیرا درد ختم ہوگا کب ظلم اور بربریت   کا یہ دور ختم ہوگا ۔ ہم تو سنتے تھے کہ انصاف کا نظام قائم ہوگا ،یہ سنتے سنتے ہم تھک گئے لیکن انصاف کا نطام ابھی تک قائم نہیں ہوسکا۔

۲۔کب جان لہوہو گی کب اشک گہر ہوگا

کس دن تیری شنوائی اے دیدہ تر ہوگی

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں  اپنی روتی ہوئی نگاہوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں  کہ ان آنسوں کا اثر میرے محبوب پر کب ہوگا اور کب میرے دل کے ارماں پورے ہونگے ،کب میری زندگی میں خوشحالی آئے گی ۔

۳۔کب مہکے گی فصل گل کب بہکے گا مے خانہ

کب صبح سخن ہوگی کب شام نظر ہوگی

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ کب وہ دور آئے گا جب ہماری زندگیوں میں سکون اور خوشحالی آئے گی  ہر طرف امن اور سکون ہوگا  اور لوگوں کے سروں سے ظلم کا یہ نظام ہمیشہ کے لیے ختم ہو گا ۔

۴۔ واعظ ہے نہ زاہد ہے ناصح ہے نہ قاتل ہے

اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اس دیار میں اب نہ کوئی پرہیزگار ہے  اور نہ کوئی نصیحت کرنے والا رہا  اور نہ ہی محبوب رہا ہے اسلیے اب اس شہر میں جینے کا کوئی وجہ ہی نہیں رہا ۔

۵۔کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ

کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہوگی

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اے میرے محبوب میں تمھارا انتطار کرتے کرتے تھک گیا لیکن تمھارا وصال نصیب نہیں ہو سکا اسلیے اب تم ہی بتاؤ وہ کو ن سا دن ہوگا جب تم اپنی صورت سے میرے دل کو راحت  پہنچاؤ گے ۔ کیونکہ تم کو ہی اپنے آنے کی صحیح خبر ہوگی ۔

سوالات :

س1: فیض کی شاعری کا موضوع کیا ہے ؟

جواب:فیض کی شاعری کا موضوع مطلوم عوام کا درد و کرب ہے انہوں نے اپنی شاعر ی میں ایسے نظام کو قا ئم کرنے کی آرزو کی ہے جس نظام  میں مظلوم عوام کی شنوائی و داد رسی ہو۔

س2۔ فیض کی غزلوں میں قفس اور چمن یا رات اور سحر کے الفاظ ان معنوں میں استعمال نہیں ہوئے جن معنوں میں یہ عام طور پر اردو غزل میں استعمال ہوتے رہے ہیں کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ فرق کیا ہے ۔

جواب: فیض ؔ کی غزلوں میں قفس قیدخانے کو کہا گیا ہے اور چمن وطن کو کہا گیا ہے۔ رات  ظلم اور سَحر ایسا نظام طلوع ہونے کو کہا گیا ہے  جس کی بنیاد حق پر قائم ہو جب کہ اردو کی روایتی شاعری میں قفس پنجرے اور چمن حجرہ شاعر کے لیے استعمال ہوا ہے ۔ رات جدائی اور سَحر وصال یار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں ۔

س3: باد نو بہار ،کنج لب، شب ہجراں ، قامت جانانہ ، تراکیب ہیں ۔لفظوں کو اضافت سے ملائے جائے تو ترکیب بن جاتی ہے اس طرح کی فارسی تراکیب کا استعمال اردو شاعری میں عام رہا ہے ، آپ مزید پانچ اور تراکیب لکھیے۔

جواب: دیدہ تر ، سر کا کل ، شب مرگ، میدان جنگ ، قلب صافی   

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment