تازہ ترین

Monday, May 16, 2022

کب ٹھہرے گا درد کب رات بسر ہوگی || تشریح || فیض احمد فیض

 

کب ٹھہرے گا درد کب رات بسر ہوگی

غزل نمبر ۲

۱۔کب ٹھہرے گا درد کب رات بسر ہوگی

سنتے تھے وہ آئیں گے سنتے تھے سَحر ہو گئی

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں  اپنے دل سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں  کہ اے دل کب تیرا درد ختم ہوگا کب ظلم اور بربریت   کا یہ دور ختم ہوگا ۔ ہم تو سنتے تھے کہ انصاف کا نظام قائم ہوگا ،یہ سنتے سنتے ہم تھک گئے لیکن انصاف کا نطام ابھی تک قائم نہیں ہوسکا۔

۲۔کب جان لہوہو گی کب اشک گہر ہوگا

کس دن تیری شنوائی اے دیدہ تر ہوگی

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں  اپنی روتی ہوئی نگاہوں سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں  کہ ان آنسوں کا اثر میرے محبوب پر کب ہوگا اور کب میرے دل کے ارماں پورے ہونگے ،کب میری زندگی میں خوشحالی آئے گی ۔

۳۔کب مہکے گی فصل گل کب بہکے گا مے خانہ

کب صبح سخن ہوگی کب شام نظر ہوگی

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ کب وہ دور آئے گا جب ہماری زندگیوں میں سکون اور خوشحالی آئے گی  ہر طرف امن اور سکون ہوگا  اور لوگوں کے سروں سے ظلم کا یہ نظام ہمیشہ کے لیے ختم ہو گا ۔

۴۔ واعظ ہے نہ زاہد ہے ناصح ہے نہ قاتل ہے

اب شہر میں یاروں کی کس طرح بسر ہوگی

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اس دیار میں اب نہ کوئی پرہیزگار ہے  اور نہ کوئی نصیحت کرنے والا رہا  اور نہ ہی محبوب رہا ہے اسلیے اب اس شہر میں جینے کا کوئی وجہ ہی نہیں رہا ۔

۵۔کب تک ابھی رہ دیکھیں اے قامت جانانہ

کب حشر معین ہے تجھ کو تو خبر ہوگی

تشریح : فیض احمد فیضؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اے میرے محبوب میں تمھارا انتطار کرتے کرتے تھک گیا لیکن تمھارا وصال نصیب نہیں ہو سکا اسلیے اب تم ہی بتاؤ وہ کو ن سا دن ہوگا جب تم اپنی صورت سے میرے دل کو راحت  پہنچاؤ گے ۔ کیونکہ تم کو ہی اپنے آنے کی صحیح خبر ہوگی ۔

No comments:

Post a Comment