تازہ ترین

Sunday, November 28, 2021

سبق آتش || غزلیات کی تشریح || سولات کے جواب || class 12th urdu notes

 

class 12th urdu notes

حیدر علی آتش . حالات زندگی

خواجہ حیدر علی نام آتش ؔتخلص۔ فیض آباد میں 1778میں پیدا ہوئے۔بچپن میں ہی یتیم ہو گئے اور اعلی تعلیم و تربیت سے محروم رہے۔ لیکن قدرت نے آتشؔ کوبچپن میں  ہی شاعرانہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ اور اس شاعرانہ صلاحت نے آتش کو جلدی ہی نواب محمد تقی خان کے دربار تک پہنچادیا۔ نواب متقی کے ساتھ بعد میں آتش لکھنوآئے اور پھرلکھنو میں ہی زندگی گزاری۔ خودداری اور قناعت کا ایسا جو ہر تھا جس نے ان کو بلند مرتبہ عطا کیا کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ بادشاہ وقت سے جواسی روپے ماہوار کا وظیفہ ملتاتھا اس پرقناعت کرتے تھے۔ آخری عمر میں بنائی جاتی رہی جس کی وجہ سے ادھر ادھر جانا ترک کردیا تھا، اور اپنے چھوٹے سے مکان میں ہی بیٹھے رہتے تھے جہاں ہر وقت شاگردوں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ آخر70سال کی عمر میں ۱۸۳۷ء میں لکھنوی میں انتقال کیا۔

خصوصیات کلام :- ان کے کلام کی سب سے بڑی خوبی زبان کی صفائی اور محاورات کاپر مل استعمال ہے۔ رنگینی اور شوخی تحریر روز مرہ کا لطف مضمون کا اختصار ان کے کلام کو چمکا دیتے ہیں ان کے کلام میں اثر حسن کا نہایت نازک اور لطیف احساس پایا جاتا ہے وہ عربی اور فارسی کے الفاظ سے پرہیز کرتے ہیں ۔ وہ روز مرہ کی زبان کی شاعری کے قالب میں نہایت مہارت کے ساتھ ڈھالتے ہیں۔ آتش نے نہ صرف غزل کے میدان میں ہی پرواز کی بلکہ اپنی شیریں زبان سے غزل کو زندہ جاوید بنادیا ہے۔ ان کے اشعار میں اخلاقی مضامیں کی کثرت نمایاں ہے اور جب عشق ومحبت کے موضوع پر شعر کہتے ہیں توعشق کے تمام اسرارکھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ وہ خارجی مضامین کودلچسپ اورلطیف بنادیتے ہیں

سوال نمبرا) دبستان لکھنو کی بنیاد کیسے پڑی؟

جواب: سلطنت مغلیہ کا شیرازہ بکھرنے لگا تو دہلی کی مرکزیت بھی ختم ہونے لگی۔اردوزبان وادب کے حوالے سے دہلی کے بعد دوسرا اہم مرکز اودھ تھا۔ آصف الدولہ نے لکھنو کو دارلسلطنت بنادیا اور واجد علی شاہ نے انگریزوں سے ٹکر لینے کے بجائے مصلحت کا راستہ اختیار کیا ۔واجد خودراگ رنگ میں مست ہو گئے۔ * انگریزوں کے ساتھ مصلحت کے وجہ سے لکھنو میں ہرطرف عیش اور خوشحالی کا دور دورہ تھا ہر طرف راگ ورنگ اور شعر شعری کا چرچاتھا، ادھر دہلی میں اہل علم و دانش کا رہنا مشکل تھا اسلئے وہ ہجرت کر کے لکھنو کی نشاط پرور فضا میں مست ہو گئے ۔ میر ضاحک ،سوز ، میرحسن، جرات، انشاء اور مصحفی، دہلی سے لکھنو آگئے جرات کا مزاج ہمیشہ معاملہ بندی کی طرف مائل تھا لکھنو میں ان کا انداز بہت مقبول  ہوا لکھنو کے عیش پر مستانہ ماحول سے اخلاقی قدروں کا ایسازوال ہوا کہ انشاء مصحفی کی شاعرانہ چشمک نےنئے رنگ پیدا کئے۔ انشادرنگین نے ریختی کو خوب پروان چڑھایا اس طرح دبستان لکھنو کی بنیاد پڑی۔

سوال نمبر۲) د بستان لکھنو کی نمائندہ شاعروں کے نام  لکھیے؟

 د جواب) دبستان لکھنو کے نمائندہ شاعروں میں ناسخ، آتش، برق بشیر، اور شوق وغیرہ قابل ذکر ہے۔

سوال نمبر۳) دبستان لکھنو کی امتیازی خصوصیات کیا ہیں؟

جواب:- دبستان لکھنو کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہیں کہ یہاں کی شاعری میں نشاطیہ عنصر غالب نظر آتا ہےیعنی لکھنو کے شعری سرمائے میں مسرت کی لہر دوڑی ہوئی نظر آتی ہے۔ عورتوں کے حسن کا یہاں بے دریغ اظہار کیا گیا اس دبستان میں معاملات اور واردات قلبی کے بجائے یہاں خارجی معاملات کا بیان ملتا ہے۔

 سوال) حسن تعلیل کسے کہتے ہے۔

جواب ) شاعرااپنے تخیل سے کسی چیز کی کوئی ایسی وجہ پیش کرتا ہے جو دراصل اس کی نہیں ہوتی مگر غیرحقیقی  وجہ سے بڑی خوبصورت ہوتی ہے۔

 

 

No comments:

Post a Comment