شوریدہ کاشمیری
حالات زندگی: آپ کا اصل نام غلام محمد
ملک اور شوریدہ تخلص تھا ۔ شوریدہ کاشمیریؔ ان کا قلمی نام ہے۔ آپ 18 مارچ 1924ء کو ضلع شوپیان کے ایک گاؤں پنجورہ
میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام محمد عبد اللہ ملک تھا۔ شوریدہ کاشمیری کی تعلیم کا
آغاز اپنے ہی موضع کے ایک مکتب میں ہوا ۔اس وقت ان کی عمر سات برس کی تھی۔ چھ
مہینے میں انہوں نے قرآن مجید ناظرہ پڑھا۔اس کے بعد مدرسے میں داخل کیے گئے۔وہاں
انہیں اردو سے انس پیدا ہوا۔پانچویں جماعت پاس کرنے کے بعد قصبہ کے مڈل اسکول میں
داخلہ لیا۔ یہاں انہیں اردو کے علاوہ عربی،انگریزی اور ریاضی میں بھی دلچسپی پیدا
ہو ئی ۔مڈل کا امتحان پاس کرنے کے بعدشوریدہ کاشمیری نے اسلامیہ ہائی اسکول سرینگر
میں داخلہ لیا ۔ مارچ ۱۹۴۱ء میں میٹرک پاس کرنے کے بعدانہوں نے ایس پی کالج سرینگر
میں داخلہ لیا۔یہیں سے ان کی شعر گوئی کا باضابطہ آغاز ہوتا ہے۔ ۱۹۴۳ء میں ایف،اے
پاس کرنے کے بعد شوریدہ کاشمیری نے امر سنگھ کالج سرینگر میں داخلہ لیا۔ دسمبر
۱۹۴۴ء میں کالج سے فارغ ہوئے۔بی۔اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعدمحکمہ مال میں ملازم
ہوئے۔اسکے بعد گورنمنٹ ہائی اسکول شوپیان میں بحیثیت مدرس مقرر ہوئے ۔یہاں پانچ
سال کام کرنے کے دوران انہوں نےپرائیوٹ
امیدوار کی حیثیت سے ( ۵۶۔۱۹۵۵ء )مسلم یونیورسٹی علیگڈھ سے ایم۔اے اردو کا
امتحان پاس کیا۔پھر گورنمنٹ کالج اننت ناگ میں بحیثیت اردو لکچرر تعینات ہوئے۔کالج سطح پر
برسوں تک درس و تدریس کے فرائض انجام دینے کے بعد سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔1990ء
میں نئی بستی اسلام آباد میں انتقال کر گئے ۔
شوریدہ کاشمیری
غزل نمبر 1
فرہنگ
الفاظ |
معنی |
الفاظ |
معنی |
رعنائی |
خوبصورتی |
نودمیدہ |
تازہ کھلا ہوا |
کیفیت |
حالت |
سراب |
دھوکہ |
فرات |
عراق کا ایک دریا |
بے فیض |
بے فائدہ |
ورق گرداں |
ورق الٹنے والا |
روز وشب |
دن رات |
آفتاب |
سورج |
|
1۔مستی اپنی شراب کی سی ہے۔
آب و تاب آفتاب کی سی ہے
تشریح: شوریدہ کاشمیری اس غزل کے مطلع میں اپنی تعریف
کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں بے غم
ہوں جس طرح ایک شرابی نشے کی حالت میں بے
غم ہوتا ہے اور میرےچمک دمک ایسی ہے جیسی
سورج کی ہوتی ہے ۔
2۔ لوگ جاگے ہےہیں لیکن آنکھوں میں
کیفیت ایک
خواب کی سی ہے
تشریح : اس شعر میں
شوریدہ کاشمیری فرماتے ہیں کہ بظاہر لوگ نیند سے جاگ چکے ہیں مگر حقیقت میں وہ ابھی بھی نیند کی مستی میں
ہیں اور غفلت کا شکار ہیں ۔
3۔ روز و
شب ہے کوئی ورق گرداں
حالت اپنی کتاب کی سی ہے ۔
تشریح: شوریدہ
کاشمیریؔ فرماتے ہیں کہ میری زندگی کی مثال
اس کتاب کی سی ہے جس کے اوراق کوئی روز و
شب پلٹتا رہتا ہے اور بلآخر اس کتاب کو ختم کر دیتا ۔ اسی طرح
میر ی زندگی کے شب و روز گزر رہے ہیں اور ایک دن کتاب کی طرح یہ زندگی ختم ہو
جائے گی اور مجھے پتہ بھی نہیں چلے گا کہ
کب ختم ہوگئی ۔
4۔ تیرے رخسار و لب کی رعنائی
نو دمیدہ گلاب کی سی ہے
تشریح : شوریدہ
کاشمیری اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا محبوب
کافی خوبصورت ہیں ۔ اس کے ہونٹ اور گال تازہ اور کھلے ہوئے گلاب کی طرح ہے
۔
5۔ اب بھی کتنے فرات ہیں بے فیض
جو چمک ہے
سراب کی سی ہے
تشریح : اس شعر میں
شوریدہ کاشمیری فرماتے ہیں کہ دریا ئے فرات پانی سے سیر ہونے کے با وجود
بھی شہدائے کربلا کی پیاس نہ بجا سکا کیونکہ اس پر یذیدی فوج نے پہرا بٹھا رکھا تھا ۔اسی
دریا کی طرح آج بھی کئی ایسے خزانے ہیں اور کئی آسودہ حال لوگ ہے جن سے لوگوں کو فائدہ نہیں مل رہا ہے گویا بے فائدہ ہے ان کی چمک صرف نظروں کا دھوکہ ہے ۔
غزل نمبر 2
فرہنگ
الفاظ |
معنی |
الفاظ |
معنی |
بے حجاب |
بغیر پردہ |
لاجواب |
جس کا جواب نہ ہو |
خار زار |
کانٹوں کا میدان |
رخ |
چہرہ |
ظلمت |
اندھیرا |
|
|
1: جلوہ بے حجاب نے مارا
پردہ لا
جواب نے مارا
تشریح : شوریدہ
کاشمیری فرماتے ہیں کہ میرا محبوب انتہائی حسین اور جمیل ہیں ۔وہ ہر حال میں میرے دل کو بے قرار کر دیتا ہے چاہے
وہ پردہ کی حالت میں ہو یا بے پردہ حالت میں ۔
2۔ خار
زاروں سے بچ کر ہم نکلے
تیرے رخ کے گلاب نے مارا
تشریح : شوریدہ کا
شمیری محبوب سے مخاطب ہو کر فرماتے
ہیں کہ
میں نے زندگی میں تمام دکھوں اور
پریشانیوں کا بہادری سے مقابلہ کر دیا ۔ مگر جب تمہارا حسن دیکھا تو میں خود کو نہ بچا سکا اور تمہارے عشق کا شکار ہو گیا ۔
3۔ حسن نے
دل میں گھر کر دیا لیکن
عشق خانہ خراب نے مارا
تشریح : شوریدہ کا
شمیری اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں
کہ تمہارے عشق نے میرے دل میں گھر کر دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں تمہارے عشق میں بہت خستہ ہو گیا اور میرا گھر بار اُجڑ
گیا ۔
4۔ نت نئے
کیا سبق پڑھاتی ہے
روز و شب کی کتاب نے مارا
تشریح : شوریدہ
کاشمیری فرماتے ہیں کہ میری زندگی ایک کتاب کی طرح ہے اور اس کے شب و روز اوراق
کتاب کی طرح ہیں ۔ جس طرح انسان کتاب کے ہرنئے ورق کو
پڑھ کر نئی معلومات سے باخبر ہوتا ہے اسی
طرح میری زندگی کا ہر بدلتا ہوا دن مجھے
نئے نئے واقعات اور حالات سے باخبر کرتا ہے ۔
5۔ ظلمتوں کو جہاں کا شوریدہ ؔ
جلوہ آنجناب ﷺ نے مارا
تشریح : شوریدہ
کاشمیری اس مقطع میں اپنے آپ سے مخاطب ہو
کر فرماتے ہیں کہ اے شوریدہ ؔ یہ دنیا گمراہی اور جہالت کے اندھیروں میں گرا ہوتا
اگر اس دنیا میں حضورﷺ مبعوث نہ ہوئے ہوتے ۔
سولات :
س1: شاعر
نے دریا ئے فرات کو بے فیض کیوں بتایا ہے ؟
جواب: دریا ئے فرات
عراق کا ایک مشہور دریا ہے جس پر کربلا معرکہ
کے دوران یزیدی فوج نے پہرا بٹھا رکھا تھا اور اہل بیت کو فرات کے پانی سے محرم رکھا گویا
پانی کی فراوانی کے با وجود یہ دریا کربلا کے شہدا کی پیاس نہ بجھا سکا اور بے فیض ثابت ہوا اسی پس منظر میں شاعر نے دریا ئے فرات کو بے
فیض بتایا ہے ۔
س2: سراب
کو دھوکہ اور فریب کے معنوں میں کیوں استعمال کیا جاتا ہے ۔
جواب: صحرا میں چمکتی
ہوئی ریت کو دور سے دیکھ کر پانی کا گمان
ہوتا ہے اسکو سراب کہتے ہیں اس لئے اس لفظ کو سراب اور دھوکہ کے معنوں میں استعمال
کیا جاتا ہے ۔
س3: روز و
شب کی کتاب سے کیا مراد ہے؟
جواب: روز و شب کی کتاب سے مراد زندگی کی کتاب ہے جو دنوں اور راتوں کے گزرنے سے بنتی
ہیں ۔
س4: شاعر
کے نذدیک ظلمتوں کو کس نے مارا ؟
جواب: شاعر کے نذدیک حضور ﷺ نے ظلمتوں کو مارا ۔
Casino bonus - Bonus, list, no deposit & more - Online Casinos
ReplyDeleteGet bonus funds and win more 토토 사이트 제작 at Casino 메리트 카지노 쿠폰 Bonuses. Join and play 포커 하는 법 our exciting casino 저녁메뉴룰렛 games with bonus codes, deposit bonuses & 안전카지노사이트 get free spins.