تازہ ترین

Sunday, September 26, 2021

مستی اپنی شراب کی سی ہے || جلوہ بے حجاب نے مارا || شوریدہ کاشمیری غزلیات مع تشریح ||

 شوریدہ کاشمیری کی غزلیات مع تشریح

غزل نمبر 1

فرہنگ

الفاظ

معنی

الفاظ

معنی

رعنائی

خوبصورتی

نودمیدہ

تازہ کھلا ہوا

کیفیت

حالت

سراب

دھوکہ

فرات

عراق کا ایک دریا

بے فیض

بے فائدہ

ورق گرداں

ورق الٹنے والا

روز وشب

دن رات

آفتاب

سورج

 

1۔مستی اپنی شراب کی سی ہے۔

                    آب و تاب آفتاب کی سی ہے

تشریح:  شوریدہ کاشمیری اس غزل کے مطلع میں اپنی تعریف کرتے ہوئے  فرماتے ہیں کہ میں بے غم ہوں  جس طرح ایک شرابی نشے کی حالت میں بے غم ہوتا ہے اور میرےچمک دمک ایسی ہے  جیسی سورج کی ہوتی ہے ۔

2۔ لوگ جاگے ہےہیں لیکن آنکھوں میں

کیفیت ایک خواب کی سی ہے

تشریح : اس شعر میں شوریدہ کاشمیری فرماتے ہیں  کہ   بظاہر لوگ نیند سے جاگ چکے ہیں  مگر حقیقت میں وہ ابھی بھی نیند کی مستی میں ہیں  اور غفلت کا شکار ہیں ۔

3۔ روز و شب ہے کوئی ورق گرداں

            حالت اپنی کتاب کی سی ہے ۔

تشریح: شوریدہ کاشمیریؔ فرماتے ہیں  کہ میری زندگی کی مثال اس کتاب کی سی ہے  جس کے اوراق کوئی روز و شب  پلٹتا رہتا ہے  اور بلآخر اس کتاب کو ختم کر دیتا ۔ اسی طرح میر ی زندگی کے شب و روز گزر رہے ہیں اور ایک دن  کتاب کی طرح یہ زندگی   ختم ہو جائے گی  اور مجھے پتہ بھی نہیں چلے گا کہ کب ختم ہوگئی ۔

4۔ تیرے رخسار و لب کی رعنائی

                نو دمیدہ گلاب کی سی ہے

تشریح : شوریدہ کاشمیری اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں  کہ میرا محبوب  کافی خوبصورت ہیں ۔ اس کے ہونٹ اور گال تازہ اور کھلے ہوئے گلاب کی طرح ہے ۔

5۔ اب بھی کتنے فرات ہیں بے فیض

جو چمک ہے سراب کی سی ہے

تشریح : اس شعر میں شوریدہ کاشمیری فرماتے ہیں  کہ  دریا ئے فرات پانی سے سیر ہونے کے با وجود بھی   شہدائے  کربلا کی پیاس نہ بجا سکا    کیونکہ اس پر یذیدی فوج نے پہرا بٹھا رکھا تھا ۔اسی دریا کی طرح آج بھی کئی ایسے خزانے ہیں اور کئی آسودہ حال لوگ ہے  جن سے لوگوں کو فائدہ  نہیں مل رہا ہے  گویا بے فائدہ ہے  ان کی چمک صرف نظروں کا دھوکہ ہے ۔

غزل نمبر 2

فرہنگ

1: جلوہ بے حجاب نے مارا  

          پردہ لا جواب نے مارا

تشریح : شوریدہ کاشمیری فرماتے ہیں کہ میرا محبوب انتہائی حسین اور جمیل ہیں  ۔وہ ہر حال میں میرے دل کو بے قرار کر دیتا ہے چاہے وہ  پردہ کی حالت میں ہو یا بے  پردہ حالت میں   ۔

2۔ خار زاروں سے بچ کر ہم نکلے

            تیرے رخ کے گلاب نے مارا

تشریح : شوریدہ کا شمیری  محبوب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں  کہ  میں نے زندگی  میں تمام دکھوں اور پریشانیوں  کا بہادری سے مقابلہ کر دیا  ۔ مگر جب تمہارا حسن دیکھا  تو میں خود کو نہ بچا  سکا اور تمہارے عشق کا شکار ہو گیا ۔

3۔ حسن نے دل میں گھر کر دیا لیکن

                 عشق خانہ خراب نے مارا  

تشریح : شوریدہ کا شمیری اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر  فرماتے ہیں کہ تمہارے عشق نے میرے دل میں گھر کر دیا  جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں تمہارے عشق میں  بہت خستہ ہو گیا اور میرا گھر بار اُجڑ گیا  ۔

4۔ نت نئے کیا سبق پڑھاتی ہے

           روز و شب کی کتاب نے مارا

تشریح : شوریدہ کاشمیری فرماتے ہیں کہ میری زندگی ایک کتاب کی طرح ہے   اور اس کے شب و روز  اوراق  کتاب کی طرح ہیں ۔ جس طرح انسان کتاب کے ہرنئے  ورق  کو پڑھ کر  نئی معلومات سے باخبر ہوتا ہے اسی طرح میری زندگی کا ہر بدلتا ہوا دن مجھے  نئے نئے واقعات اور حالات سے باخبر کرتا ہے ۔

5۔ ظلمتوں کو جہاں کا شوریدہ ؔ

               جلوہ آنجناب ﷺ نے مارا

تشریح : شوریدہ کاشمیری اس مقطع میں اپنے آپ سے مخاطب  ہو کر فرماتے ہیں کہ اے شوریدہ ؔ یہ دنیا گمراہی اور جہالت کے اندھیروں میں گرا  ہوتا  اگر اس دنیا میں حضورﷺ مبعوث نہ ہوئے ہوتے ۔

سولات :

س1: شاعر نے دریا ئے فرات کو بے فیض کیوں بتایا ہے ؟

جواب: دریا ئے فرات عراق کا ایک مشہور دریا ہے جس پر کربلا معرکہ   کے دوران  یزیدی  فوج نے پہرا بٹھا رکھا تھا   اور  اہل بیت کو فرات کے پانی سے محرم رکھا  گویا   پانی کی فراوانی کے با وجود یہ دریا کربلا کے شہدا  کی پیاس نہ بجھا سکا اور بے فیض ثابت ہوا  اسی پس منظر میں شاعر نے دریا ئے فرات کو بے فیض بتایا ہے ۔

س2: سراب کو دھوکہ اور فریب کے معنوں میں کیوں استعمال کیا جاتا ہے ۔

جواب: صحرا میں چمکتی ہوئی ریت کو  دور سے دیکھ کر پانی کا گمان ہوتا ہے اسکو سراب کہتے ہیں اس لئے اس لفظ کو سراب اور دھوکہ کے معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے ۔

س3: روز و شب کی کتاب سے کیا مراد ہے؟

جواب:  روز و شب کی کتاب سے مراد زندگی  کی کتاب ہے جو دنوں اور راتوں کے گزرنے سے بنتی ہیں ۔

س4: شاعر کے نذدیک ظلمتوں کو کس نے مارا ؟

جواب:  شاعر کے نذدیک حضور ﷺ نے ظلمتوں کو مارا ۔

 

 

 

 

No comments:

Post a Comment