جوش ملیح آبادی
حالات زندگی: شبیر حسن خان نام اور جوش تخلص تھا ۔آپ 5 دسمبر 1898ء کو اترپردیش اودھ کے تاریخی قصبے ملیح آباد کے ایک علمی اور متمول گھرانے میں پیدا ہوئے۔ان کے پردادا فقیر محمد خان گویا، دبستان لکھنو کے ایک خوش فکر شاعر اور صاحب فن استاد تھے۔ابتدا میں عربی فارسی کی تعلیم گھر پر حاصل کی ۔اس کے اسکول میں مروجہ تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کی۔اسی اثنا میں ان کے والد بشیر احمد بشیر کا انتقال ہوگیا اور میٹرک کا امتحان نہ دے سکے۔مگر ذاتی مطالعہ کی وجہ سے جوش نے خاندانی روایتوں کو اپنے شاعرانہ فن میں انفرادی نمود کمال کے ساتھ نمایا کیا ہے ان کے فکر و ذہن کی تعمیر میں دبستان لکھنو کی شاعرانہ لطافتیں، ٹیگور کے روحانی نغمے ،اقبال کا فلسفہ،خودی اور پیام عمل اشتراکیت کی مزدور دوستی اور عوام پسندی غرض قدیم و جدید فکر و فن کے بہت سے عوامل سرگرم کار رہے ہیں۔ جوش نے تیرہ سال کی عمر میں شعر گوئی کا آغاز کیا۔ ابتدا میں عزیز لکھنوی سے اصلاح لی، مگر بعد میں اپنے وجدان و ذوق سے رہنمائی حاصل کی۔ جوش جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کے دار الترجمہ میں عرصہ دراز تک ملازم رہے۔ اس کے بعد دہلی سے اپنا رسالہ’کلیم‘ جاری کیا۔ بعد ازاں حکومت ہند کے رسالہ’’آج کل‘‘ کے مدیر اعلیٰ مقرر ہوئے۔ لیکن یہاں بھی زیادہ دنوں نہیں ٹک سکے ۔آزادی کے بعد بھی جوش کچھ عرصہ ہندوستان میں رہے۔ تقسیم ہند کے چند برسوں بعد ہجرت کر کے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی۔ وہاں بھی ان کی وابستگی ترقی اردو بورڈ میں رہی۔ لیکن اختلافات کے سبب ان کو وہاں سے بھی سبکدوش ہونا پڑا۔ جوش نے فلمی دنیا میں بھی قدم رکھا تھا اور سنہ 1943سے سنہ 1948کے درمیان متعدد فلموں کے گانے اور مکالمات لکھے۔جوش نہ صرف اپنی مادری زبان اردو میں مہارت رکھتے تھے بلکہ آپ عربی، فارسی، ہندی اور انگریزی پر عبور رکھتے تھے۔ اپنی اِسی خداداد لسانی صلاحیتوں کے وصف آپ نے قومی اردو لغت کی ترتیب و تالیف میں بھرپور علمی معاونت کی۔ نیز آپ نے انجمن ترقی اردو ( کراچی) اور دارالترجمہ (حیدرآباد دکن) میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ 22 فروری 1982ء کو آپ کا انتقال ہوا۔
خصوصیات کلام|| نظم نگاری
جوش کے یہاں جلال بھی ہے اور جمال بھی میں انہوں نے عشقیہ ترانے بھی الاپے ہیں اور انقلابی نظمیں بھی کہی ہیں ۔ ان کی غزلوں میں دل کی سرشاری اور سمن کی لطافت انگیز مستیاں ملتی ہیں ۔دل کی گہری چوٹ بھی نظر آ جاتی ہے ۔ان کا حقیقی کمال شاعری نظم کے میدان میں ظاہر ہوا ہے۔ انہیں الفاظ کے وسیع خزانے پر حاکمانہ تصرف حاصل ہے ۔ وہ بہت سجا کر شعر کہتے ہیں ۔نئی نئی دلاویز تشبیہات اور استعارات کے مشتاقانہ عبارت سے اپنے کلام میں طلسم پیدا کرتے ہیں ۔ ان کے لہجہ میں گھن گرج ہے۔ اسلوب بیان میں کوندتی ہوئی بجلی نظر آتی ہے اور سیاسی نظموں میں مجاہدانہ للکار ملتی ہے۔آپ کی نظمیں قومی وطنی اور آزادی کے جذبات سے مملو ہیں ۔ کلام میں بلاکا زور ہے۔ تصویر کشی خواہ وہ خارجی مناظر کی ہو یا داخلی کیفیات کی نہایت کامیابی سے کرتے ہیں۔ آپ کی تصویر میں کمال کی سر مستی اور بے خودی ہوتی ہے ۔آپ کی نظموں میں روایتی شیرینی اور نرمی بھی نہیں ۔ جوش کے یہاں شدت زیادہ ہے اور شگفتگی کم ،انہوں نے معاشرہ کے پسماندہ طبقہ کی کیفیت نہایت مؤثر انداز میں بیان کرکے اس کو اٹھانے کی کی کوشش کی ہے۔ اور بتایا ہے کہ انسان انسان سب برابر ہے اور طبقات کی تقسیم سامراجی ذہنیت کی دین ہے۔
آپ کی چند اہم تصانیف حسب ذیل ہیں:
روح ادب۔ آوازہ حق۔ شاعر کی راتیں۔ جوش کے سو شعر۔ نقش و نگار ۔شعلہ و شبنم ۔ پیغمبر اسلام۔ فکر و نشاط۔جنوں و حکمت۔ حرف و حکایت۔ حسین اور انقلاب۔ آیات و نغمات۔ عرش و فرش۔ رامش و رنگ۔ سنبل و سلاسل۔ سیف و سبو۔ سرور و خروش۔ سموم و سبا۔ طلوع فکر۔ موجد و مفکر۔ قطرہ قلزم۔ نوادر جوش۔ الہام و افکار۔ نجوم و جواہر۔
جوش کے مرثیے
عروس ادب (حصہ اول و دوم)۔ عرفانیات جوش۔ محراب و مضراب۔ دیوان جوش۔ نثری مجموعے۔ مقالات جوش۔ اوراق زریں۔ جذبات فطرت۔ اشارات۔ مقالات جوش۔ مکالمات جوش۔ یادوں کی برات (خود نوشت سوانح)
No comments:
Post a Comment