نظم وطن
مع تشریح
1۔ نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے
ہے اہل دل کے لیے اب یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ و خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
تشریح : اس بند میں فیض احمد فیض پر فرماتے ہیں کہ اے وطن تیری گلیاں اور کوچے مجھے بہت ہی پیارے ہیں اس لئے میں اپنے آپ کو ان پر نثار کرنا چاہتا ہوں یہاں کی رسم ہی عجیب و غریب ہے کہ کوئی محب وطن سر اٹھا کے نہ چلے ۔ کیوں کہ یہاں کے حاکم ایسا پسند نہیں کرتے ہیں ۔ اب اگر کوئی محب وطن، وطن کی حفاظت کے لیے نکلے تو اس کو کھلے بندوں چلنے کی آزادی نہیں ہے بلکہ وہ حاکموں کی نظروں سے پوشیدہ طور پر نکلے تاکہ اس کو کوئی نہ دیکھے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے آپ کو بچائے ورنہ یہاں کے حاکم اس کو گرفتار کرکے قید میں ڈال دیں گے۔ یہاں کے باشندوں اور لوگوں کو اب اس بات کا احساس ہونے لگا ہے کہ یہاں کے حاکموں نے پتھر اور اینٹ قید میں رکھے ہیں اور کتوں کو لوگوں کے ستانے کے لیے کھلا چھوڑا ہے۔
اس بند کے آخری شعر میں صنعت تلمیح کا استعمال کیا گیا ہے ۔شیخ سعدی نے گلستان میں ایک کہانی بیان کی ہے کہ ایک دفعہ ایک درویش ایک شہر میں داخل ہوا رات کا وقت تھا ۔در ویش کو کتوں نے تنگ کر دیا اور اس کے اردگرد جمع ہو گے ۔درویش نے پتھر اٹھانے کی کوشش کی مگر راستے میں پتھر نظر آیا اور اس کو سخت غصہ آیا اور یہاں کے لوگ کس قدر ظالم ہیں کہ کتوں کو آزاد چھوڑا ہے کہ وہ لوگوں کو ستائے مگر پتھر اور اینٹ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے ۔فیض احمدفیض کہتے ہیں کہ یہی حال ہمارے وطن کا ہے کہ وطن کے ساتھ غداری کرنے والے آزاد ہے مگر محب وطن کتوں کا مقابلہ کرتے ہیں مگر ان کے پاس کوئی سامان موجود نہیں۔
2۔ بہت ہے ظلم کے دست بہانہ جو کے لیے
جو چند اہل جنوں تیرے نام لیوا ہیں
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
مگر گزارنے والوں کے دن گزرتے ہیں
ترے فراق میں یوں صبح و شام کرتے ہیں
فیض احمد فیض اس بند میں فرماتے ہیں کہ ظلم کرنے کے لیے ظالم حاکموں نے مختلف قسم کے بہانے تلاش کر کے اپنا کام شروع کیا ہے۔ کچھ محب وطن تیرا نام لیتے ہیں تو ان کو ستایا جا رہا ہے لالچی حاکم دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم انصاف کرنے والے ہیں اور وطن کی رکھوالی کرتے ہیں۔ اب خدا کے لیے بتائیے کہ ان حالات میں کس کو ہم اپنا وکیل بنائے اور کس سے انصاف کی تلاش کریں کرے مگر پھر بھی لوگ تیری دوری اور جدائی میں دن گزارتے ہیں اور صبح و شام جوں توں کرکے زندہ رہتے ہیں۔
3۔ بجھا جو روزن زنداں تو دل یہ سمجھا ہے
کہ تیری مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی
چمک اٹھے ہیں سلاسل تو ہم نے جانا ہے
کہ اب سحر ترے رخ پر بکھر گئی ہوگی
غرض تصور شام و سحر میں جیتے ہیں
گرفت سایۂ دیوار و در میں جیتے ہیں
تشریح: شاعر کو قید خانے کی تنگ و تاریک کوٹھری میں وطن کی یاد آتی ہے کہ زمانہ گزر گیا اور قید خانے کی کھڑکی سے جب دن کی روشنی اوجھل ہو جاتی ہے اور شام کو روشنی نہیں ہوتی ہے ۔جب رات کی تاریکی چھا جاتی تو شاعر سمجھتا ہے کہ وطن کی مانگ ستاروں سے بھر گئی ہوگی اور ہماری کلائیوں میں جو زنجیریں پنہاں ہے وہ چمک اٹھی شاید صبح نے تیرے چہرے پر پر اپنا رخسار، اپنی زلفیں بکھیر رہی ہے اور اس طرح ہم صبح و شام تیری جدائی میں گزارتے ہیں۔
یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
اسی سبب سے فلک کا گلہ نہیں کرتے
ترے فراق میں ہم دل برا نہیں کرتے
تشریح: فیض احمد فیض قید خانے میں وطن کی دوری اور جدائی کو محسوس کرتے ہوئے کہتا ہے کہ لوگوں نے ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور لڑائی لڑی ہے۔اکثر ظلم کے خلاف لڑائی لڑنے میں شکست بھی ہوئی ہے اور بعض اوقات فتح بھی حاصل کی ہے کیونکہ دنیا کا دستور ہمیشہ سے یہی رہا ہے اس میں ہار جیت میں کوئی نئی بات موجود نہیں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وطن کی جدائی میں جو ظلم ہم برداشت کرتے ہیں اس کی شکایت آسمان سے نہیں کرتے ہیں اور اس طرح اے وطن قید میں رہنے کے باوجود بھی ہم دل کو تیری جدائی میں برا نہیں کرتے ہیں۔
گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوں گے
یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں
گر آج اوج پہ ہے طالع رقیب تو کیا
یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں
جو تجھ سے عہد وفا استوار رکھتے ہیں
علاج گردش لیل و نہار رکھتے ہیں
تشریح: شاعر قید خانے میں اپنے دل کو تسلی دے کر سمجھا رہا ہے کہ ائے وطن اگر ہم آج تجھ سے دور ہیں تو وہ دن بھی آنے والا ہے جب ہم مل جائیں گے ۔اس لئے یہ جدائی عارضی ہے اور یہ ظلم کے ایام رہنے والے نہیں ہیں۔اگر چہ آج ہمارے دشمن کی قسمت اچھی ہے یہ چار دن کی چاندنی ہے اور پھر اندھیری رات آئے گی ۔ائے قطن ہم نے جو تیرے ساتھ وفاداری کا عہد استوار کیا ہے اس میں ہم رات دن کی گردش کا علاج سمجھتے ہیں۔
سوال فیض احمد فیض نے وطن نظم میں کن خیالات کا اظہار کیا ہے۔مختصر طور پر لکھیے۔
وطن فیض احمد فیض کی مشہور نظم ہے جو شاعر نے قید خانے میں لکھی ہے ہے اور ان کے مجموعہ کلام زندہ نامہ میں شامل ہے۔اس نظم میں اپنے وطن میں سماجی اور سیاسی حالات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور ارباب حکومت پر نکتہ چینی کی ہے کہ وطن کی ترقی اس میں سمجھتے ہیں کہ باشعور لوگوں کے ساتھ الجھا جائے اور ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا کا دستور یہی رہا ہے کہ زمانے نے محب وطن لوگوں کو طرح طرح کی آزمائشوں میں مبتلا کر کے انہیں ظلم و ستم کی زنجیروں میں گرفتار کیا ہے مگر شاعر اپنے دل کو سمجھا جاتا ہے یہ عارضی جدائی ہے کہ وہ دن دور نہیں جب ہم وطن میں جاکر اس کی عزت اور آبرو کو بلند بنا لیں گے ۔ دنیا میں لوگوں نے ظلم کے ساتھ الجھ کر آگ کو گلزاروں میں تبدیل کیا ہے ۔ ظلم کی مثال چار دن کی چاندنی کی سی ہے ظالم حکمران ختم ہو جائیں گے اور وطن آزاد ہو کے رہے ۔فیض کے متوازن نقطہ نظم اور فنی خلوص نے اس نظم میں آب و رنگ پیدا کیا ہے اور یہ نظم سینکڑوں مبلغ شعراکے کارناموں پر بھاری ہے۔ محبان اردو نے اس نظم کی فنی اور جمالیاتی خوبیوں کا اعتراف کیا ہے یہ نظم ترقی پسند سرمائےمیں دائمی قدروقیمت رکھتی ہے۔ واقعی اس نظم کی اشاعت کی وجہ سے اردو شاعری ایک نئے آہنگ سے آشنا ہوئی ہے ۔ نظم کی فضا میں افسردگی اور مایوسی نہیں بلکہ ہر جگہ امید اور رجائیت کا احساس ملتا ہے جو فیض کی شاعری کی نمایاں خوبی ہے نظم میں بیزاری تلخی یا پسپائی کے بجائے ایک طرح کی مٹھاس اور کسک ہے جس میں ان کا جمالیاتی وجدان ایک خوش آئند ہ فضا پیدا کر دیتا ہے حقائق کے ادراک اور شعور نے اپنے ذاتی تجربات اور واردات کی دنیا سے نکال کر زمانے کی تلخیوں سے آنکھیں چار کرنا بھی سکھا دیا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے وطن کے لیے بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لیے تیار ہے اس نظم میں وہ محب وطن شہری کی طرح رونا نہیں روئی ہے۔ بلکہ ایک مجاہدانہ عزم اور ولولہ کے ساتھ لوگوں کو ہمت اور حوصلہ عطا کرتے ہیں اس خوبی کی وجہ سے نظم کا آہنگ بہت ہی بلند نظر آتا ہے۔
Excellent explanation
ReplyDelete