مرزا رجب علی بیگ سرور لکھنوی
حالات زندگی : آپ کا نام مرزا رجب علی بیگ تھا۔ سرور تخلص کرتے تھے۔ آپ شاعر بھی تھے اور ادیب بھی ۔آپ دبستان لکھنو کے ایک اہم نثر نگار ہیں آپ کے والد کا نام مرزا اصغر بیگ تھا سرور غالباً 1787ءمیں پیدا ہوئے تھے بچپن میں درس و تدریس کے علاوہ فن موسیقی اور فن خوش نویسی کو بھی سکھا تھا ۔عربی اور فارسی کی اچھی تعلیم حاصل کی تھی۔ شاعری میں آغا نوازش حسین کے شاگرد تھے۔ اپنے زمانے کے مشہور خطاط مانے جاتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ 1824ء میں نواب غازی الدین حیدر کے حکم سے جلاوطن کر دیا گیا تو وہ پہلے کانپور آئے۔یہاں انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کر لی ۔لیکن یہ گوشہ نشینی ادب کے حق میں بہت اچھی ثابت ہوئی اسی زمانے میں انھوں نے اپنی لازوال تصنیف" فسانہ عجائب" لکھی۔ پھر نواب نصیر الدین حیدر کے عہد میں لکھنؤ واپس آئے 1846ءمیں سرور کو واجد علی شاہ نے اپنے درباری شعراء میں شامل کرکے پچاس روپیہ ماہوار تنخواہ مقرر کی۔ واجد علی شاہ کی جلاوطنی کے بعد سرور کو مالی پریشانیوں میں مبتلا ہونا پڑا تو مہاراجہ ایشری پرساد نارائن سنگھ وائی بنارس نے ان کو اپنے پاس بلالیا اور اپنے دربار میں بڑی عزت کے ساتھ رکھا ۔مہاراجہ سیودان سنگھ وائی الور نے بھی سرور کو اپنے یہاں دعوت دی مہاراجا پٹیالہ بھی انکی لیاقت کا اعتراف کرتے ہوئے جواہر نگار طلائی چوڑیوں کا ایک جوڑا بھی بھیجا۔ اپنی عمر کے آخری زمانے میں سرور آنکھوں کی تکلیف میں مبتلا ہو گئے۔ بالآخر25 مارچ 1867 کو بنارس میں وفات پائی۔
فسانہ عجائب
فسانہ عجائب اردو کی چند اہم کتابوں میں سے ہے یہ ایک ادبی شاہکار اور قدیم طرز انشا کا بہترین نمونہ ہے۔ اس کی عبارت مقفیٰ اور مسجع، طرز بیان رنگین اور دلکش ہے۔ ادبی مرصع کاری، فنی آرائش اور علمی گہرائی کو خوب جگہ دی گئی ہے۔اس کے بغیر اردو ادب کا مطالعہ ممکن نہیں ہے یہ لکھنوی تہذیب اور شخصیت کا آئینہ دار ہے لکھنو کی تہذیب سرور کے زبان و بیان کی بدولت اس کتاب میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ سمٹی ہوئی نظر آتی ہے۔ مرزا غالب کی انشاءپردازی کے قائل تھے اور ان کا کہنا تھا کہ انداز بیان کی خوبی میں فسانہ عجائب بے نظیر ہے ۔فسانہ عجائب کا قصہ طبع زاد ہے جس سے سرور نے خود لکھا ہے کہیں سے ترجمہ نہیں کیا ہے ۔یہ معمولی حسن و عشق کی داستان ہی اس میں طلسم دیوؤں سے لڑائی ،جادوگروں سے مقابلہ ،سفر کے عجائبات و غرائب بکثرت پائے جاتے ہیں ۔
سرور نے لکھنوی زندگی کے مناظر کو پر تکلف انداز میں بیان کیا ہےاور ان کی تفصیلات میں لکھنو کی زندگی ، وہاں کی رسمیں۔ شان و شکوہ غرض ہر چیز کی ایک تصویر بن کر نظر کے سامنے سے گزرتی جاتی ہے ۔توہم پرستی اور کمزور عقیدے، پیشنگوئی اور شگون غیرہ کو انسانی زندگی میں بے حد دخل تھا۔ نجوم،پنڈت،رمال ذکر ہر جگہ کیا جاتا ہے ۔
فسانہ عجائب کا اسلوب اس زمانے کا مروجہ اصول ہے۔اس اسلوب نے ادب کو زبان کی نزاکتوں اور لفظوں کے اعجاز سے آگاہ کیا ۔ مصنف نے قصے سے زیادہ اسلوب پر توجہ دی ہے اور یہی اس کی امتیازی شان ہے سرور کو ہر فرقہ کی گفتگو کو بیان کرنے پر قدرت حاصل تھی۔
ڈاکٹر عابدہ بیگم فسانہ عجائب کے متعلق لکھتی ہیں:
”فسانہ عجائب اپنے دور کی مقبو ل ترین کتا ب تھی۔ یہ متاثرین فارسی کی انشاپردازی کا اردو جواب تھی۔ سرور نے کچھ ایسا جادو جگایا جو تیس سال تک اردو نثر کے سر پر چڑھا رہا۔“
فسانہ عجائب کے علاوہ سرور کی چند مشہور تصانیف:
١۔فسانہ عجائب
٢۔ سرور سلطانی
٣۔ شرر عشق
٤۔ شگوفہء محبت
٥۔ انشائے سرور
No comments:
Post a Comment