تازہ ترین

Sunday, August 1, 2021

نظم حسن اور مزدوری کی تشریح | جوش ملیح آبادی

جوش کی نظم


نظم حسن اور مزدوری

 ایک دوشیزہ سڑک پر دھوپ میں ہے بے قرار 

چوڑیاں بجتی ہیں کنکر کوٹنے میں بار بار 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ ایک کنواری دہیاتی لڑکی گرمی کے موسم اور دھوپ میں سڑک پر بیٹھی کنکر توڑ رہی ہے ۔گرمی کی شدت سے بیقرار ہے اور کنکر توڑتے ہوئے اسکی چوڑیاں بج رہی ہیں


چوڑیوں کے ساز میں یہ سوز ہے کیسا بھرا 

آنکھ میں آنسو بنی جاتی ہے جس کی ہر صدا 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ  چوڑیوں کی جھنکار ایسی درد بھری ہے کہ سننے والا افسردگی کی عالم میں پہنچ جاتا ہے اور آنکھوں میں آنسوں بھر آتے ہیں 


گرد ہے رخسار پر زلفیں اٹی ہیں خاک میں 

نازکی بل کھا رہی ہے دیدۂ غم ناک میں 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ اس لڑکی کی گالوں اور بالوں  پر گرد پڑی ہے اسکے افسردہ دل کی گواہی اسکی معصوم آنکھیں دے رہی ہے اور نزاکت اس کے اوپر رہ رہ کے قربان ہو رہی ہے۔


ہو رہا ہے جذب مہر خونچکاں کے روبرو 

کنکروں کی نبض میں اٹھتی جوانی کا لہو 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ شدید دھوپ  کی وجہ سے اس لڑکی کا بدن اور چہرہ  پسینہ ہی  پسینہ  ہوگیا ہے۔ پسینہ ٹپک  ٹپک کر کنکروں کی نبض میں جذب ہو رہا ہے۔


دھوپ میں لہرا رہی ہے کاکل عنبر سرشت 

ہو رہا ہے کمسنی کا لوچ جزو سنگ و خشت 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ اس کنوری لڑکی کے کالے بال اس کے چہرے پر لہرارہے ہیں اور خوشبو بکھیر رہے ہیں مگر اس لڑکی کو اپنے بالوں کی طرف کوئی دھیان نہیں ہے بلکہ وہ کنکر توڑنے میں مصروف ہے۔


پی رہی ہیں سرخ کرنیں مہر آتش بار کی 

نرگسی آنکھوں کا رس مے چمپئی رخسار کی 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ شدید  دھوپ اور جھلسا دینے  والے سورج کی کرنیں اس کی حسیں نرگسی آنکھوں کا حسن اور اس کے گلابی رخساروں کی رونق کم کر رہی ہیں


غم کے بادل خاطر نازک پہ ہیں چھائے ہوئے 

عارض رنگیں ہیں یا دو پھول مرجھائے ہوئے 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ غموں  اور تکا لیف  کی کثرت نے اس کے گلاب جیسے رخساروں کو مرجھا دیا اور حسرت و یاس کی تصویر بنادیا ہے۔


چیتھڑوں میں دیدنی ہے روئے غمگین شباب 

ابر کے آوارہ ٹکڑوں میں ہو جیسے ماہتاب 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ اس دہیاتی لڑکی کے پھٹے اور پیوند لگے کپڑے اس کی غم اور رنج سے بھری جوانی کا راز فاش کر رہے ہیں ۔ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے  ابر کے ٹکڑوں میں چاند  ہے۔


اف یہ ناداری مرے سینے سے اٹھتا ہے دھواں 

آہ اے افلاس کے مارے ہوئے ہندوستاں! 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ اس کنواری دیہاتی لڑکی کا شدید دھوپ میں مزدوری کرنا  دیکھ کر میرا دل نہایت افسردہ ہوگیا اور زبان سے بے ساختہ نکل پڑتا ہے ہندوستان افلاس کا کیسا مارا ہے۔


حسن ہو مجبور کنکر توڑنے کے واسطے 

دست نازک اور پتھر توڑنے کے واسطے 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ گردش ایام اور افلاس نے  اس معصوم نازک کنواری لڑکی کو  کنکر توڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔


فکر سے جھک جائے وہ گردن تف اے لیل و نہار 

جس میں ہونا چاہیئے پھولوں کا اک ہلکا سا ہار 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ افسوس ہے جس گردن میں پھولوں کا ہار ہونا چاہیے وہ محنت اور مزدوری کے لئے جھکی ہوئی ہے 


آسماں جان طرب کو وقف رنجوری کرے 

صنف نازک بھوک سے تنگ آ کے مزدوری کرے 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ افسوس ہے کہ سنگدل آسمان پر ایک نوجوان نازک اندام لڑکی کو جسے عیش و عشرت میں زندگی گزارنا چاہے تھا وہ مصیبت میں مبتلا ہو کر بھوک کی وجہ سے مزدوری کرنے پر مجبور ہو گئی ہے۔


اس جبیں پر اور پسینہ ہو جھلکنے کے لیے 

جو جبین ناز ہو افشاں چھڑکنے کے لیے 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ  جس پیشانی پر مقیش ہونا چاہیے تھا اس پیشانی پر افلاس کی وجہ سے پسینہ ہے 


بھیک میں وہ ہاتھ اٹھیں التجا کے واسطے 

جن کو قدرت نے بنایا ہو حنا کے واسطے 

اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ جن ہاتھوں کو قدرت نے مہندی کے لئے بنایا تھا ان ہاتھوں کو گردش ایام نے پتھر توڑنے  اور بھیک مانگنے کے لئے مجبور کردیا ہے۔


نازکی سے جو اٹھا سکتی نہ ہو کاجل کا بار 

ان سبک پلکوں پہ بیٹھے راہ کا بوجھل غبار 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ وہ آنکھیں جنھیں کاجل یا سرمہ کا بوجھ بھی نا قابل برداشت ہو آج وہ دکھ بھری آنکھیں دھواں اور مٹی سے بھری ہوئی ہیں۔


کیوں فلک مجبور ہوں آنسو بہانے کے لیے 

انکھڑیاں ہوں جو دلوں میں ڈوب جانے کے لیے 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ  آسمان کی سنگدلی کا خاص سبب یہ ہے کہ اس کے دل کی آنکھیں بند ہیں اگر جا گتی یا کھلی ہوتیں تو ان میں ہمدردی ہوتی اور ان مظلوموں کی حالت پر آسمان آنسو روتا ۔سرمایہ دار جو روپے کے نشہ میں گہری نیند میں سو رہے ہیں ان غریب اور مصیبت زدہ مزدوروں کی حالت پر آنسوں بہاتے۔


مفلسی چھانٹے اسے قہر و غضب کے واسطے 

جس کا مکھڑا ہو شبستان طرب کے واسطے 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ افسوس کہ مفلسی نے اس خوبصورت چہرے کو جسے جوانی رات کی  مست کرنے والی محفل میں بتانا چاہے تھی ،غم اور مفلسی کے لئے جھانٹ لیا اور مصائب کا بوجھ اس پر حد سے زیادہ ڈال دیا ۔


فرط خشکی سے وہ لب ترسیں تکلم کے لیے 

جن کو قدرت نے تراشا ہو تبسم کے لیے 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں جو ہونٹ مسکرا مسکرا کر دوسروں کو خوش کرتے ان کا دل لبھاتے  ، آج افلاس ،بھوک اور پیاس کی وجہ سے  اس قدر بے تاب ہے کہ بات بھی منھ سے نہیں نکلتی۔


نازنینوں کا یہ عالم مادر ہند آہ آہ 

کس کے جور ناروا نے کر دیا تجھ کو تباہ؟ 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ اے ہند تیرے چاہنے والوں کا یہ عالم ہے کہ ان پر رونا آرہا ہے معلوم نہیں کہ تمہارا سکون کس نے درہم برہم کر دیا اور تمہارے چاہنے والوں کو افلاس اور تکالیف میں مبتلا کریا۔


ہن برستا تھا کبھی دن رات تیری خاک پر 

سچ بتا اے ہند تجھ کو کھا گئی کس کی نظر 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ اے ہند معلوم نہیں تجھ کو کس کی نظر لگ گئی  ورنہ دن رات تجھ پر صرف مل و دولت ہی برستی تھی۔


باغ تیرا کیوں جہنم کا نمونہ ہو گیا 

آہ کیوں تیرا بھرا دربار سونا ہو گیا 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ معلوم نہیں  اے وطن تیرے محب لوگ کیوں افلاس اور مصائب کا شکار ہوگیے  اور تیرا  سکون اور ہنستا کھلتا سماں کیوں ختم ہوگیا۔


دست نازک کو رسن سے اب چھڑانا چاہیئے 

اس کلائی میں تو کنگن جگمگانا چاہیئے 


اس شعر میں جوش فرماتے ہیں کہ ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان نازک ہاتھوں کو سخت محنت سے چھڑادیں ۔یہ نازک ہاتھ مشقت او مزدوری اور پتھر توڑنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ نازک کلائیاں اس قابل ہے کہ ان میں خوش رنگ چوڑیاں ہوں اور چمکتے ہوئے کنگن۔

No comments:

Post a Comment