تازہ ترین

Tuesday, August 18, 2020

میں ایک شہر تھا ۔۔۔۔۔ پونچھ || سوالات کے جواب|| class 9th urdu notes

ناول

ناول اطالوی زبان کے لفظ ناویلہ سے مشتق ہے لغت کے اعتبار سے ناول کے معنی نادر اور نئی بات کے ہیں لیکن صنف ادب میں اس کی تعریف بنیادی زندگی کے حقائق بیان کرنا ہے  ناول کی جامع تعریف کی جائے تو وہ کچھ یوں ہوگی ناول ایک نثری حصہ ہے جس میں پوری ایک زندگی بیان کی جاتی ہے ہے گویا ناول ایک  نثری قصہ ہے جس میں ہماری حقیقی زندگی کا عکس نظر آتا ہے اور یہ ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ہماری امنگیں اور آرزو ئیں جھلکتی ہے جس میں یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمارے سامنے نے کیا مشکلیں آتی ہے ہے اور ہم ان پر کس طرح قابو پاتے ہیں ہیں یعنی ناول زندگی کی تصویر کشی کا فن ہے اس کے عناصر ترکیبی میں کہانی پلاٹ کردار مکالمہ زماں و مکاں اسلوب اور نقطہ نظر وغیرہ آتے ہیں  
           اردو کے جدید نثری اصناف میں ناول ایک ترقی یافتہ صنف ہے ہے اردو میں سب سے پہلے مولوی نذیر احمد نے ناول لکھے ان کے ناول مراۃالعروس کو اردو کا پہلا ناول تسلیم کیا جاتا ہے ہے انکے بعد جس ناول نگار  نے اس روایت کو آگے بڑھایا یا وہ پنڈت ناتھ سر شار ہے  جو اپنے ناول کوہسار جام سرشار کامنی اور فسانہ آزاد کی وجہ سے جانے جاتے ہیں سرشار کے بعد شرر کی ناول فتح اندلس فردوس بریں عزیز مصر لکھ کر اردو ناول کے خزانے میں اضافہ کیا شرر کے بعد جو اہم نام ہمارے سامنے آتا ہے وہ امراؤ جان ادا کے مصنف مرزا ہادی رسوا کانام آتا ہے ان کے  بعد جن ناول نگاروں نے اس صنف کی پیروی کی اور اس کے فروغ میں حصہ ڈالا ان میں منشی پریم چند سجادظہیر عصمت چغتائی قرۃالعین خدیجہ مستور وغیرہ خصوصت کے ساتھ قابل ذکر ہیں

Krishan chander
 Krishan chander
    کرشن چندر 

 کرشن چندر 23 نومبر 1914 ء کو وزیر آباد ضلع گجرانولہ پاکستان میں تولد ہوئے۔ کرشن چندر کے والد کا نام گوری شنکر تھا جو پیشے سے ایک میڈیکل آفیسر تھے ۔کرشن چندر کے بچپن میں ہی وہ ملازمت کے سلسلے میں  پونچھ کشمیر آگئے اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ کافی برسوں تک کے لئے  یہاں مقیم ہوگئے ۔ کرشن چندر کی ابتدائی تعلیم پونچھ کے  وکٹوریہ ہائی اسکول میں ہوئی جو تقسیم ہند کے بعد اسلامیہ اسکول پونچھ کہلایا۔

      کرشن چندر نے 1929 کو ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی۔ 1933 میں بی اے مکمل کیا 1935 ء کو ایم اے انگریزی کیا بعد ازاں قانون کی تعلیم پائی ۔ 1939 میں آپ کا پہلا افسانوی مجموعہ شائع ہوااور 1943 کو آپ کا پہلا ناول شائع ہوا ۔ آپ نے کئی فلموں کی کہانیں ، منظر نامے اور مکالمے بھی لکھے ۔ شکست ،دھرتی کے لال ، دل کی آواز ، دو پھول ، من چلی، دو چور  ایسی فلمیں ہیں جہنوں نے کرشن چندر کی صلاحتوں کو پردے پر پیش کیا۔ آخر 8 مارچ 1977 کو دل کا دورہ پڑ جانے کی وجہ سے آپ  ممبئی مہاراشٹر میں انتقال کر گئے۔


سبق میں ایک شہر تھا۔۔۔۔۔۔ پونچھ

سوال نمبر 4: کرشن چندر نے پونچھ کو روم کے ساتھ تشبیہ کیوں دی وضاحت کیجئے
جواب۔کرشن چندر نے پونچھ کو روم کے ساتھ اس لیے تشبیہ دی کیونکہ وہاں بھی ایسے ٹیلے تھے جس طرح پونچھ  میں تھے مگر روم سات ٹیلوں پر آباد ہے جب کہ پونچھ بارہ ٹیلوں پر آباد ہے ۔
سوال نمبر 5 : کرشن چندر اپنے والد کے ساتھ شاہی محل میں کیوں گئے اور وہاں کیا واقع پیش آیا 
جواب- کرشن چندر کے والد پیشے سے ایک ڈاکٹر تھے راجہ بیمار تھا اس لیے وہ راجہ کو علاج کرنے کے لیے گئے تھے۔کرشن چندر بھی اپنے والد کے ساتھ تھے شاہی محل میں کرشن چندر راجکماروں کے رشتہ داروں کے ساتھ کھیلنے لگا جہاں وہ سب لڑکے اپنی اپنی چیزیں دکھانے لگے تو انہوں نے کرشن چندر کو بھی کوئی نہ کوئی چیز دکھانے پر مجبور کیا تو کرش نچندر نے وزیر آبادی چاقو دکھایا مگر دیکھتے ہی راجکماروں نے وہ چاقو چھین لیا جس پر آپس میں خوب لڑائی ہوئی اور کرشن چندر کے کپڑے پھٹ گئے والد نے بھی کرشن چندر کو مارا کہ راجکماروں پر ہاتھ کیوں اٹھایا اور آخرکار چاقو راجکماروں کے پاس ہی رہا۔
میں ایک شہر تھا ۔۔۔۔۔۔۔پونچھ
 خلاصہ:-
"مٹی کے صنم " کرشن چندر کا ایک سوانحی ناول ہے جو اس نے پونچھ کے پس منظر میں لکھا ہے ۔میں ایک شہر تھا پوچھ اسی ناول کا ایک حصہ ہے اس ناول میں کرشن چندر نے بار بار وادی کشمیر اور پونچھ کا مقابلہ ممبئی کی تیز رفتار زندگی کے ساتھ کیا ناول کے اس حصے میں کرشن چندر نے   پونچھ میں بچپن کے گزارے ہوئے دن یاد کرکے پوچھ کی خوبصورتی اردگرد کا ماحول  آپسی بھائی چارہ رسم و رواج میل جول کا ذکر کیا ہے ۔اور بتایا ہے کہ شہر پونچھ دریاؤں یعنی دریائے بے تاڑ اور دریائے پونچھ کے سنگم پر آباد ہے اور لکھتے ہیں کہ پچھلے زمانے میں ایک راجہ پْونش تھا جس نے اس وادی میں ایک شہر بسایا جس کا نام پْونش رکھا گیا جو بعد میں بگڑ کر پونچھ ہو گیا کرشن چند لکھتے ہیں کہ اس شہر سے وابستہ میری کئی یادیں ہے اس شہر میں بسنے والا ہر ایک چہرہ مجھے آج بھی یاد ہےاس کے برعکس  ممبئی شہر  میں  مجھے 20 سال ہو گئے مگر یہاں ابھی تک میں  چار چہروں کو بھی نہیں پہچان پاتا ہوں ۔ کر شن چند کہتے ہیں کہ روم سات ٹیلوں پر آباد ہے۔   اور میرا پونچھ بارہ ٹیلوں پر ،شاید اسی لیے مجھے پونچھ زیادہ پیارا لگتا ہے ہمارا اسکول شہر کے   بیچوں بیچ تھا اور کھیل کا میدان شہر سے باہر باغات کے کنارے تھا جو کرشن چندر کی نظر میں دنیا کے عمدہ سے عمدہ کھیل کے میدانوں میں سے ایک تھا  کرشن چند مزید لکھتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ والد کے ساتھ شاہی محل گیا ۔ وہ ڈاکٹر تھے اور وہ  راجہ کو دیکھنے گئے تھے جو بہت بیمار تھے وہاں راجکماروں کے علاوہ ایک شاہی باورچی تھا شاہی باورچی کا بیٹا تھا اور دوتین لڑکے تھے جو راجکماروں  کے قریبی رشتہ دار تھے انہوں نے مجھے اپنی چیزیں دکھائی اور پوچھا کہ آپ کے پاس دکھانے کے لئے کیا ہے میری جیب میں ایک وزیر آبادی چاقو تھا جب میں نے ان کو دکھایا تو ایک راجکمار نے میرے ہاتھ سے وہ چاقو چھین لیا اور کہا کہ یہ میں رکھ لیتا ہوں اور اس کا بھائی بولا کہ یہ چاقو میں رکھوں گا مگر میں دونوں سے الجھ پڑا۔ کہ یہ چاقو میرا ہے تمہیں کیوں  دوگا میرا چاقو مجھے واپس کر دو ۔ آپس میں لڑائی ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے میرے سارے کپڑےپھٹ جاتے ہیں اور میں رونے لگا جب میرے پیتا جی نے میری آواز سنی تو میں زور زور سے رونا رونے لگا  مگر وہ چاقو مجھے  نہیں ملا یہ بہت بعد میں پتہ چلا کہ جاگیر داری اسی طرح چلتی ہے مگر آج بیس سال گزرنے کے بعد بھی مجھے وہ چاقو  یاد ہے۔

No comments:

Post a Comment