فورٹ ولیم کالج کے مصنفین ||NET/SET/JRF

URDU DARASGAH
0

 

فورٹ ولیم کالج کے مصنفین

ڈاکٹر جان گل کرسٹ

ڈاکٹر جان گلکرسٹ  کا اصل نام جان بارتھ وک گل کرسٹ تھا ۔وہ پیشے سے ایک ڈاکٹر تھے ۔گل کرسٹ 19 جون 1759 کو ایڈنبرگ میں پیدا ہوئے ان کے والد والٹر گلکرسٹ تھے ، لیکن ان کے بارے میں بہت کم معلومات ہیں۔ لیکن سوائے اس کے کہ وہ ایک ایسا تاجر تھا جو جان کی پیدائش کے سال غائب ہوگیا تھا۔ اس کی والدہ ہنریٹا فرورحسن تھیں ۔گل کرسٹ کی تعلیم جارج ہیریٹ اسکول اور ایڈنبرگ ہائی میں ہوئی۔16 سال کی عمر میں ، انہوں نے ویسٹ انڈیز کا سفر کیا ، جہاں انہوں نے انڈگو کی کاشت اور پیداوار کے بارے میں معلومات حاصل کیں۔

1782 میں ، گل کرسٹ کو رائل نیوی میں سرجن کے ساتھی کی حیثیت سے ملازمت حاصل کی  اور ہندوستان کے شہر بمبئی کا سفر کیا گیا۔ وہاں  انہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی میڈیکل سروس میں شمولیت اختیار کی اور 1784 میں اسسٹنٹ سرجن مقرر ہوئے۔ انہوں نے کمپنی کی بنگال آرمی کے ساتھ فتح گڑھ تک مارچ کیا ،۔ ہندوستان مین انہوں نے فارسی اور اردو سیکھنی شروع کی اور یہ زبانیں سیکھنے کے لئے انہوں نے ہندوستانی لباس اختیار کیا  اور اردو زبانوں کے مرکز میں رہ کر فارسی اور اردو سیکھی ۔ کمپنی کی طرف سے بھی ہندوستانی زبان سیکھنے کے لئے ترغیب دی جاتی تھی یعنی تیس روپیہ الاؤنس دیا جاتا تھا۔ انہوں نے اردو زبان سیکھنے میں خصوصی دلچسپی لی ۔ انہوں نے کمپنی کو مطلع کیا کہ اب فارسی کو دفتری زبان بنائے رکھنے کی ضرورت نہیں رہی بلکہ اس کی جگہ اردو کو دفتری زبان بنانا زیادہ مؤثر ہوگا  

 1832 میں اردو کو سرکاری زبان کی حیثیت دی گئی ۔ گو اس وقت گرکرسٹ اپنے وطن لندن روانہ ہو چکے تھے لیکن ان کی تجویز پر عمل کیا گیا ۔فورٹ ولیم کالج کے قیام سے پہلے گل کرسٹ نووارد انگریز عہدےداروں کو فارسی کی تعلیم دیا کرتے تھے اور بغیر کسی معاو ن کے انہیں نوشت و خواند کے قابل بنا کر دیا کرتے تھے۔ جب لارڈ ولز لی گورنر جنرل بن کر جب ہندوستان آئے تو انہوں نے کمپنی کے ملازمین کے لیے اعلیٰ پیمانہ پر ایک کالج کے قیام کی سفارش کی لیکن کمپنی کے دوسرے عہد ے داروں نے بھی کانٹ چھانٹ کے بعد ایک کالج کے قیام کی منظوری دی۔ 1800 ء میں فورٹ ولیم کا لج کلکتے میں قائم ہوا۔ گل کرسٹ کی خدمات کو دیکھتے ہوئے انہیں ہندوستانی شعبے کا صدر اور پروفیسر بنایا گیا ۔ گل کرسٹ صرف چار سال تک ہی کاج کی خدمات انجام دیتےرہے اور خرابی صحت کی وجہ سے اپنے وطن لندن لوٹ گئے ۔ لیکن ان چار سالوں میں انہوں نے فورٹ و لیم کالج میں تمام ہندوستان سے قابل اور لائق ماہرین زبان کو جمع کر دیا اور ان سے تصنیف و تالیف کا کام ان سے اس طرح لیا کہ ان کے جانےکے بعد فورٹ و لیم کالج کے ماہرین زبان تصنیف و تالیف میں لگے رہے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی نے خود انگلستان میں جب ادارة شر ته Oriental Institute قائم کیا تو گل کرسٹ کو اردو کی پروفیسری پر معمور کیا ۔ اس ادارہ میں صرف ان کو تعلیم دی جاتی تھی جوطبی عہدے پر فائز ہو کر ہندوستان جاتے تھے ۔ وہ اس ادارے میں 1825 ء تک یعنی اس ادارے کے برخاست ہونے تک کام کرتے رہے۔ بعد میں وہ اپنے طور پر کمپنی کے امیدواروں کو اردو پڑھاتے رہے۔ 88 سال کی عمر میں 1841ء میں گل کرسٹ کا انتقال ہوا۔

انہوں نے حسب ذیل تصنیفات  لکھی ہیں :

انگریزی ہندوستانی لغت، ہندوستانی علم للسان، اردو کی صرف نحو، مشرقی زبان داں، اردو زبان پر مختصر مقدمہ، ہندوستان کی آسان مشقیں ، فارسی افعال کا جدید  نظریہ، اجنبیوں کے رہنمائے اردو، بیاض ہندی، عملی خاکے ، ہندی الفاظ کی قرات، اتالیق ہندی، ہندی عربی آئینہ، مکالمات انگریزی و ہندوستانی،  مشرقی قصے، ہندی داستاں گو۔

میر امن دہلوی

میرامن کا نام میرامان تھا۔ اور امن(لطف) تخلص تھا۔ دہلی کے رہنے والے تھے۔ اور وہاں کی آباد جاگیر موجود تھی۔ احمدشاه ابدالی کے محلے میں اس پر سورج مل جانے کا قبضہ ہو گیا اور مجبور ہو کر پٹنہ چلا گیا۔ کچھ دنوں وہاں قیام کرنے کے بعد کلکتے آگئے اور نواب زاده میرمحمد کاظم خان کی تعلیم وتربت پر مامور ہوئے۔ انھیں دنوں اپنے دوست میر بہادر علی حسینی کے زریعہ فورٹ ولیم کالج میں ملازم ہوئے۔ یہاں انہیں ترجمہ کا کام سونپا گیا۔

عطا حسین حسینی نے فارسی قصہ چہار در ریش کا فارسی سے اردو میں "نو طرز مرصع “ کے نام سے ترجمہ کیا تھا لیکن اس کی زبان بہت مشکل تھی ۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام کا مقصد ہ یہ تھا کہ انگریز افسروں کو عام بول چال کی زبان سکھائی جائے ۔تحسین کا ترجمہ ان کے کسی کام کا نہ تھا۔ میرا من حب کا لج سے وابستہ ہو گئے تو ڈاکٹر جان گلگرائٹ نے یہ کام ان کے سپرد کیا کہ اس قصے کو آسان اور عام فہم زبان میں لکھیں۔

میرامن نے اس قصے کو نہایت آسان صاف اور بول چال کی زبان میں" باغ و بہار" کے نام سے لکھا ۔ انھوں نے تحسین کے" نو طرز مرتصع ،، کے علاوہ فارسی "قصہ چہار درورش ، مصنف میرا حمد خلف شاہ  محمد کو بھی سامنے رکھا۔ انھوں نے بول چال کی زبان استعمال کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ کتاب مقبول ہوئی اور آج تک اسے بہتشوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اس کی سادگی اور سلاست نے اردوزبان میں ایک نیا راستہ کھول دیا اور اردو والوں کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ سادگی کا اپنا حسن ہوتاہے اور زبان کو آگے بڑھنا ہے تو اسے پیچیدگی، نفالی اور عبارت آرائی سے پرہیز کرنا چاہیے۔ رنگین اور بناوٹی زبان اظہار خیال کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔

" باغ و بہار" کی اسی خوبی کو دیکھتے ہوئے سرسید نے کہا تھا کہ میرامن کو اردو میں وہی مرتبہ حاصل ہے جو میر تقی میر کو شاعری میں حاصل ہے۔ میرامن نے جہاں تک ہو سکا ہے عربی فارسی الفاظ سے گریز کیا ہے۔ بابائے اردوڈاکٹر عبدالحق نے لکھا ہے کہ جہاں وہ آسانی سے عربی اور فارسی کا لفظ لکھ سکتے تھے۔ وہاں بھی انہوں نے سیدھے الفاظ کو ترجیح دی ہے ۔ مثلا خوشی کی جگہ آنند، رونت کی جگہ روبٹ پیام کی جگہ سند یسا جیسے لفظوں کا انتخاب کیا ہے تاکہ ہر آدمی اس کتاب کو پڑھ کر لطف حاصل کر سکے۔ اس طرح کا ایک نمونے ملاحظہ ہو

"ائے بیرن تومیری آنکھوں کی پتلی اور ماں باپ کی موئی مٹی کی نشانی ہے۔ تیرے آنے سے میراکلیجہ ٹھنڈا ہوا جب تجھے دیکھتی ہوں باع باغ ہوجاتی ہوں"

باغ و بہار سے اس زمانے کے رہن سہن، طورطریق اور رسم ورواج کا پتہ چلتا ہے مترجم نے علمی زبان استعمال کر کے بول چال کی زبان لکھی ہے اور ان لفظوں کا وہ املاء استعمال کیا ہے جس سے بول چال کا تلفظ معلوم ہوجاتاہے جیسے جمعرات کی جبکہ جمعیرات، شب برات کی جگہ شبرات

میر امن نے گلستان کا ترجمہ کی ترجمہ "گنج خوبی" کے نام سے کیا لیکن اسے باغ و بہار کی سی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔

میرشیر علی افسوس

 نام میر شیر علی تخلص افسوسؔ۔ باپ کا نام میرمظفر علی خاں تھا۔ یہ میر قاسم کے داروغہ توپ خان تھے ۔ میر شیرعلی 1735ء میں پیدا ہوئے۔ لکھنو کے قیام میں افسوسؔ کو شاعری کا شوق ہوگیا اور اپنا کلام امیر حیدرعلی حیرا ن کو دکھانے لگے ۔ یہیں نواب رضاخاں. نائب آصف الدولہ کے ذریعہ سے ان کی ملاقات کرنل اسکارٹ سے ہوئی۔ کرنل اسکاٹ ان سے مل کر بہت خوش ہوئے۔ انہوں نے دوسو روپیہ ماہوارپر کلکته بھیج دیا۔ پانچ سو روپے زادراہ کے لیے دیے۔ کلکتہ پہنچ کرافسوسؔ فورٹ ولیم کالج  کے شعبہ تصنیف و ترجمہ میں ملازم ہو گئے ۔ ان کی تصانیف وترجمے حسب ذیل:۔

أردوترحمه گلستان سعدی جو" باغ اردو" کے نام سے مشہور ہے۔ دوسرا ترجمہ خلاصنۃ التواریخ۔ افسوس کے طبع ذاد کتابوں میں آرایش محفل قابل ذکر ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے کلیات سودا کوتصیح کر کے چھپوایا خود بھی صاحب دیوان تھے۔ افسوں نے 1805ء میں وفات پائی۔

 سید حیدربخش حیدری

 نام حیدر بخش تختص حیدری ۔ باپ کا نام سیدابوالحسن تھا۔ دہلی کے رہنے والے تھے ۔ حیدری ابھی کم  سن تھے کہ ان کے والدمعاشی پریشانیوں سے تنگ آکر مع اہل وعیال دلی سے بنارس چلے گئے۔ اور وہیں سکونت اختیارکرلی۔ اس زمانہ میں نواب علی ابراهیم خان خلیل بنارس کے ناظم عدالت تھے۔ انہوں نے حیدری کی سر پرستی کی اور ان کی تعلیم کا انتظام کر دیا۔ کچھ عرصہ قاضی عبدالرشید کے مدرسہ میں پڑھتے رہے۔ پھر مولوی غلام حسین غازی پوری سے فقہ وحدیث اور دوسرے علوم اسلامی کی تعلیم حاصل کی تعلیم سے فراغت کے بعد نواب علی ابراہیم خاں خلیل نے اپنی ماتحتی میں دفتر عدالت میں کسی جگہ پر تقررکرادیا۔

اٹھارہویں صدی کے آخر میں کلکتہ گئے اور  اپنے ساتھ قصہ مہروماہ کے نام سے اردومیں  ایک کہا نی لکھ  کرلے گئے جو ڈاکٹر جان گلکرسٹ کی خدمت میں پیش کی۔ یہ کتاب بہت پسندکی گئی۔ اور فورٹ ولیم کالج کے شعبہ تصنيف و ترجمہ میں حیددری کا تقرر ہوگیا۔ حیدری کا لج میں صرف چند سال رہے پھر بنارس واپس چلے گئے۔۱۸۲۳ء میں حیدری نے وفات پائی۔ فورٹ ولیم کا لج میں انھوں نے جو کتابیں لکھیں  ان میں سے کچھ یہ ہیں۔

1)   ترجمه مثنوی لیلیٰ مجنوں ۔مصنف امیرخسرو۔

ر۲، توتا کہانی یہ دراصل سنسکرت کی ایک پرانی کتاب کے فارسی ترجمہ کا اردو خلاصہ ہے سنسکرت سے فارسی میں ترجمہ مولانا ضیاء الدین بخشی نے کیا تھا۔ اور اس کا فارسی خلاصه سید محمد قادری نے کیا تھا حیدری نے اسی خلاصہ کو اردویں منتقل کر دیا۔ ترجمہ آج تک مقبول ہے۔

(4) آرایش محفل یہ حاتم طائی کے فارسی قصہ کا خلاصہ ہے ۔( یہ کتاب افسوس کی آرایش محفل سے بالکل مختلفت ہے)

(4)، نظامی گنجوی کی مشہور فارسی مثنوی ہفت پیکر کے رنگ میں ایک مثنوی حیدری نے اردو میں لکھی تھی جو شائع نہیں ہوئی۔

(ہ ) منشی مرزا مہدی کی کتاب"نادر نامہ" کا اردو ترجمہ تاریخ نادری کے نام سے کیا۔ کتاب بھی شائع نہیں ہوئی۔

(6) تذکرہ گلشن ہند۔ 

(7) گل مغفرت۔ گل مغفرت کے نام جو حیدری کی کتاب ملتی ہے وہ فارسی کی "روضتہ الشہدا " کا ترجمہ ہے ۔حیدری نے "روضتہ الشہدا" کا ترجمہ "گلشن شہداں " کے نام سے کیا تھا ۔پھر اس کا ایک انتخاب کیا اور اس کا نام "گل مغفرت " رکھا ۔اس کتاب کا فرانسیسی زبان میں بھی ہوا۔

(8) "گلزار دانش" یہ کتاب شیخ عنایت اللہ کی مشہور فارسی کتاب "بہار دانش " کا ترجمہ ہے ۔لیکن اس کا کوئی نسخہ نہہیں ملتا ہے ۔

میرا بہادرعلی حسینی

 فورٹ ولیم کارلج میں  میرمنشی تھے۔ میر بہادر علی حسینی دہلی کے باشندے تھے ۔سے پہلے فورٹ ولیم کالج میں بھرتی ہوئے تھے۔ میر امن ان ہی کی وساطت سے فورٹ ولیم کالج میں ملازم ہوئے۔میر بہادر علی کے زندگی کے  حالات بھی پردہ خفا میں ہیں ان کی پیدائش اور وفات کے متعلق کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے والد کا نام سید عبد اللہ کاظم بتایا جاتا ہے۔ تذکرہ نگارلکھتے ہیں کہ حسینی شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی۔ وہ کب فورٹ ولیم کالج میں بھرتی ہوئے اور کب تک منسلک رہے اس کے بارے میں معلومات موجود نہیں انہوں نے حسب نول کتابیں تصنیف اور ترجمہ کی تھیں۔

(1)"اخلاق ہندی۔یہ کتاب سنسکرت کی کتاب "ہنو پادشاہ" کے فارسی ترجمہ" مفرح القلوب"  کا سلیس اردو ترجمہ ہے جوڈاکٹر گلکرسٹ کی فرمائش پر ۱۹۵۳ء میں انہوں نے  کیا تھا۔ 

(2)"نثر بے نظیر" مثنوی میرحسن(سحرالبیان) کے قصہ کو اردونثر میں منتقل کیا۔ یہ کتاب ۱۸۵۲ء میں شائع ہوئی تھی۔10) ترجمہ تاریخ آسام ۔ان کے علادہ قصہ لقمان اور قرآن شریف کے ایک ترجے میں بھی انہوں نے شرکت کی۔

مرزا کاظم علی جوانؔ

مرزا کاظم علی نام اور جوانؔ تخلص ۔دلی کے باشندے تھے۔ لیکن لکھنو میں بس گئے تھے۔1884ءمیں لکھنو سے  انہوں نے  اپنے کلام کا نمونہ نواب علی ابراہیم خاں خلیل مصنف" تذکره گلزار ابراہیم" کو بھیجا۔ 1800 میں کرنل اسکاٹ نے ان کولکھنو سے فورٹ ولیم کا لج کے لیے منتخب کرلیا۔  میں ان دنوں شعر و شاعر ی کی محفلیں گرم تھیں۔ بحیثیت شاعر انھوں نے بہت جلد مقبولیت حاصل کی۔1801میں اپنی ملازمت کا آغاز کیا۔ 3جولائی 1816کو ان کا انتقال ہوا۔ مندرجہ ذیل کتابوں کا اردو ترجمہ کیا۔

"شکتلا" مصنف کالی داس - اس کا برج بھاشا سے اردومیں ترجمہ کیا تھا۔

(2) ترجمہ قرآن(3) ترجمه تاریخ فرشتہ متعلق خاندان بہمنی(4) سنگھاسن بتیسی اس کی تصنف میں للو لال جی بھی شریک تھے۔ ر5) بارہ ماسہ یا دستور ہند۔ ان میں ہندوستان کی فصلوں اور تہواروں کا ذکر ہے۔ (6) انتخاب کلام سودا ۔ ان کے علاوہ مولوی حفیظ الدین کی کتاب خود افروز پرنظرثانی کی اور کلیات شعرا کی تیاری میں مددی۔

 نہال چند لاہوری

 دہلی میں پیدا ہوئے ۔ لاہور میں زیادہ رہے اس لیے لاہوری مشہور ہیں 1852ء میں کلکتہ گئے جہاں ایک کپتان و لورٹ نے ان کی سفارش ڈاکٹر گلکرائٹ سے کردی۔ اور فورٹ ولیم کالج میں جگہ مل گئی۔ ڈاکٹر صاحب کی فرمایش سے "تاج الملوک" اور" بکاولی "کا 1812 میں فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا اور اس کا نام "مذہب عشق " رکھا۔

 مظہر علی خاں ولا

ولا کی تاریخ پیدائش اور وفات کے بارے میں معلوم نہیں ۔مظہر علی ولا کا اصل نام مرزا لطف علی تھا لیکن عام طور پر مظہر علی خان کے نام سے مشہور ہیں۔ مظہر علی ولا کا تعلق بھی دہلی سے تھا۔ وہ دہلی میں پیدا ہوئے اور وہاں تربیت پائی۔ 

مظہر علی خان والاؔ

نام مظہر علی خان تخلص ولاؔ ۔ سلیمان علی خان کے بیٹے اور دہلی کے رہنے والے تھےاور وہاں تربیت پائی۔مرزا صاحب کلکتہ کے کالج میں مںنشی تھے۔مظہر علی ولانثر نگار اور شاعر تھے فورٹ ولیم کالج کے قیام کے ساتھ ہے اس سے وابستہ ہو گئے۔ اُن کو اردو، سنسکرت اور فارسی پر مکمل دسترس حاصل تھی۔

 ذیل کی تصانیف ان کی طرف منسوب ہیں :۔

مظہر علی خان نے تقریباً سات کتابوں ک اردو ترجمہ کیا مگر صرف دو کتابیں ہی شائع ہوئیں۔(1) مادھواور کالا کندلا (2) ترجمہ کریما (3) ہفت گلشن (4) اخلاقی ہندی (5) پیتال پچیسی (6) تاریخ شیر شاہی (7) جہانگیر نامہ

بینی نرائن

نام بنی نرائن تخلص جہاںؔ وطن لاہور ۔ تلاش روزگار میں ہندوستان کے مختلف شہروں میں گھومتے رہے۔فورٹ ولیم کالج کی خبر سنتے ہی قسمت آزمانے کلکتہ گئے اور حیدر بخش کی وساطت سے کالج میں ملازمت حاصل کی ۔"دیوان جہاں" کے مولف ہیں  جو فی الواقع  اردوشعراء کا ایک تذکرہ ہے۔ یہ تذکرہ سیکرٹیری فورٹ ولیم کالج کی فرما یش پر لکھا گیا تھا کپتان ٹیلر نے اس کو پسند کیا اورمصنون کو معقول انعام دیا۔ ان کی دوسری کتاب چار گلشن ہے۔گارسان دیتاسی کی تحقیق کے مطابق انہوں نے شاہ رفیع الدین کی تنبیہ الغافلین کا اردو ترجمہ بھی کیا۔ آخر مسلمان ہو کر مولاناسیدا حمد کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔

 مرزاعلی لطف

 کاظم علی خاں استرآبادی کے بیٹے تھے جو نادر شاہ کے ساتھ 1741ء  میں ہندوستان آئے تھے اور ابوالمنصورخان صفدر جنگ کی وساطت سے در بارشاہی میں داخل ہوئے۔ لطف حیدرآباد دکن جانا چاہتے تھے مگر جان گلکرسٹ نے روک لیا اور تذکرہ گلشن ہند لکھوایا ۔ اس کاسنہ تصنيف 1851ء ہے اور اس کا ماخذ نواب علی ابراہیم خان خلیل کا تذکرہ گلزار ابراہیم ہے۔ انہوں نے خود بھی اس میں کافی اضافہ کیا۔ پہلے تذکرہ گلشن  هند بالکل نایاب تھا۔ جب حیدر آبادی میں طوفان آیا تو اس کی ایک جلد موسی ندی میں کسی قدر دان کو بہتی ہوئی مل گئی۔ بعد میں انجمن ترقی اردو نے اس کتاب کو بہت اہتمام سے چھپوا دیا۔ دوسری کتاب ان کی کلیات لطف ہے۔ 

مزاجان طیشؔ

 نام مزامیر اسمٰعیل مگر مرزاجان کی عرفیت سے شہرت پائی طپش تخلص تھا۔غالبا 1767ء  میں بمقام دہلی پیدا ہوئے بچپن سے لے کر جوانی تک دہلی کے علماء کی صحبت میں رہے۔ عربی اور سنسکرت زبانیں بھی یہی سیکھیں ابتدا میں ولی عہد مرزا جوان بخت جاندار کے درباریوں میں ملازم ہوئے۔ کچھ دنوں بعد اپنی خدمات فوجی ملازمت میں منتقل کرالیں۔

مرزا جہاندار شاہ کے مرنے کے بعد دلی سے نکل کھڑے ہوئے۔ ڈھاکہ پہنچے کچھ دنوں نواب سیداحمد علی خاں کے مصاحبین میں رہے پھر وہاں سے کلکتہ آگئے۔ فورٹ ولیم کالج تک رسائی پیداکی کالج میں جگہ مل گئی طؔیش کی ابتدائی خدمات کالج کی کتابوں پر نظر ثانی سے متعلق تھیں۔ اسی شعبہ میں خیل الدین اشک بھی تھے طپش سے ان کے مراسم تھے طیش  نے بہار دانش کے نام سے ایک فارسی قصے کو نظم کیا ہے جو1849 ء میں فورٹ ولیم کالج کی طرف سے شائع کیا گیا۔شمس البیان فی المصطلحات ہندستان لکھی تھی جو 1849 میں مرشد آباد سے شائع ہوئی تھی۔طیش سے "یوسف ذلیخا" بھی منسوب کی جاتی ہیں فارسی کے مشہور قصہ یوسف ذلیخا کو طیش نے اردو میں منظوم کی اہے ۔لیکن یہ نا پید ہیں ۔

 مولوی امانت اللہ

 تصنیفات :-  ہدایت الاسلام عربی، ہدایت الاسلام اردو، ترجمہ قرآن مجید، جامعالاخلاق ، صرف اردو

شیخ حفیظ الدین :

تصنیف: خرد افروز

خلیل علی خان اشک

تصنیفات: قصہ امیر حمزہ ، اکبر نامہ

مولوی اکرام علی

تصنیفات: اخوان الصفا

سر عبداللہ مسکین

تصنیفات: مرثیہ ہائے مسکین

للو لا کوی

تصنیفات: پریم ساگر ، راج نیتی ، سبہا بلاس، مہاد یو بلاس، لطائف ہندی، سنگاسن بیتسی

مرزا محمد فطرت:

تصنیفات: عہد نامہ جدید

محی الدین فیض

تصنیفات: چشمہ فیض

سید حمید الدین بہاری:

تصنیفات: اخوان الوان

 

 

 

 

 

Post a Comment

0Comments
Post a Comment (0)