رامائن کا ایک سین
1۔ کیا جانے کس خیال میں گم تھی وہ بے گناہ
نور نظرپہ دیدہ حسرت سے کی نگاہ
جنش ہوئی لبوں کو بھری ایک سرد آہ
لی گوشہ ہائے چشم سے شکوں نے رخ کی
راہ
چہرے
کا رنگ حالت دل کھولنے لگا
ہر موے تن زبان کی طرح بولنے
لگا
تشریح:- اس بند میں چکبست
فرماتے ہیں کہ جب رام چندر بن باس جانے والے تھےاور اعجازت لینے کے غرض سے اپنی
ماں کے پاس گئے ۔ تو اس کے آنکھوں سے آنسو کی لڑی جاری ہوئی اس کی چہرے پر دل کا
اضطراب ظاہر ہونے لگا اور ایسا لگتا تھا کہ جیسے بدن سے سارے بال آہ وزاری کررہے
ہے۔
2۔ آخر اسیر یاس کا قفل دہن کھلا
وا
تھا وہان زخم کہ باب سخن کھلا
اک دفتر مظالم چرخ کہن کھلا
افسانہ شداید رنج و سخن کھلا
درد دل غریب جو صرف بیاں ہوا
خون
چکر کا رنگ سخن سے عیاں ہوا
تشریح:- اس بند میں چکبست
فرماتے ہیں کہ آخر جب وہ اپنے
بیٹے سے ہم کلام ہوئی تو ایسا لگ رہا تھا جسے ایک مظلوم نسان نے اپنے او پر ہونے والے ظلموں کا دفتر کھلا ۔
گویا جب ماں بولنے لگی تو اس کے دل کا حال اس کی زبان سے عیاں ہونے لگا ۔
3۔ سن کر زبان سے ماں کی یہ فریاد درد خیز
اس خستہ جان کے دل پہ چلی غم کی تیغ تیز
عالم یہ تھا قریب کہ آنکھیں ہوں اشک ریز
لیکن ہزار ضبط
سے رونے سے کی گریز
سوچا یہی کہ جان سے بے کس گزر نہ جائے
ناشاد ہم کو دیکھ کے ماں اور مرنہ جائے
تشریح:- اس بند میں چکبست
فرماتے ہیں کہ جب رام چندر جی نے ماں کی یہ درد بری فریاد سنی تو اس کا دل
ریزہ ریرہ ہوگیا۔مگر صبر کرکے اپنے آنکھوں سے آنسو کو جاری نہ ہونے دیا ۔اور سوچنے
لگا کہ اگر ماں نے میرے آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اس کا دکھ اور بڑھ جائے گا ۔
4 کہتے تھے لوگ دیکھ کے ماں باپ کا ملال
انبے کسوں کی جان کا بچنا ہے اب محال
ہے کبریا کی شان گزرتے ہی ماہ و سال
خود دلل سے
درد ہجر کا کٹتا گیا خیال
ہاں
کچھ دنوں تو نوحہ ماتم ہوا کیا
آکر
کو روکے بیٹھ گئے اور کیا کیا
تشریح:- اس بند میں چکبست
فرماتے ہیں کہ لوگ اس کے ماں باُپ
کو دیکھ کر یہی سوچ رہے تھے کہ شاید اب یہ لوگ بیٹے کی جدائی کے اس دکھ کو برداشت
نہیں کر پائیگے ۔لیکن قدرت کا کمال یہ ہوا کہ چند ماہ و سال گزر جانے کے بعد ہی ان
کے دلوں سے جدائی کا یہ غم غائب ہوگیا ہا ں یہ بات تو ہے کہ چند ایام تو ماتم کرتے
رہے پھر صبر نے ان کو سب کچھ بلایا اور ان کے دل کو تسلی دی
5۔ اکثر ریاض کرتے ہیں پھولوں پہ باغباں
ہے دن کو دھوپ رات کو شبنم انہیں گراں
لیکن جو گل ہزاروں پر دوں میں جاتے ہے ناگہاں
وہ
گل ہزاروں پردوں میں جاتے. ہیں رائیگاں
رکھتے تھے جو عزیز انہیں جان کی طرح
ملتے ہیں دست یاس وہ برگ خزاں کی طرح
تشریح:- اس بند میں چکبست
فرماتے ہیں کہ ایک باغبان پھولوں کا اس طرح خیال رکھتا ہے کہ ان پر پڑنے والی دھوپ
اور شبنم بھی اسے دکھ نہیں پہنچاسکتی ہے لیکن جب خزان کے موسم کی سرد ہوا آجاتی ہے
تو وہ ان کو مرجاتی ہے اور آخر ان کا وجود
ہی ختم کرتی ہے۔چاہیے وہ پھول ہزاروں میں کیوں نہ ایک ہواور باغبان ہاتھ ملنے کے
سوا کچھ نہیں کر پاتا ہے
6۔ اپنی نگاہ ہے کرم کار ساز پر
صحرا چمن بنے گا وہ ہے مہربان اگر
جنگل ہو یا پہاڑ سفر ہو کہ خضر
رہنا نہیںوہ حالی سے بندو کے بے خبر
اس کا کرم شریک اگر ہے تو غم
نہیں
دامان
دشت دامن مادر سے کم نہیں
تشریح:- اس بند میں چکبست رام چندر کے والد کو بیٹے کی زبانی کہتے ہیں کہ جنگل میں طرح طرح کے پھول ہوتے ہیں ان کی تازگی کا دار مدار کسی باغبان اور محنت پر نہیں ہوتا بلکہ قدرت کے رحم و کرم پر ہوتا ہے ۔ برف ہو کہ بارش ،طوفان ہو یا خزان کے تند جھونکے ان کاکوئی کچھ نہیں بگاڑ سکتے کیوں کہ ان پر قدرت کا سایہ ہوتا ہے
No comments:
Post a Comment