تازہ ترین

Sunday, May 23, 2021

میر تقی میر سوالات کے جواب || Urdu Notes for 10th class

 

میر تقی میر کی حالات زندگی

                      میرتقی میر ۔ 

جواب:۔ میر تقی نام اور تخلص میر تھا1723ءمیں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد علی تھا۔ میردس سال کے ہوئے ان کا والد کا انتقال ہو گیا۔والد کے انتقال کے بعد سوتیلے بھائیوں نے میر کو ستانا شروع کیا ۔ والد کے جائیداد میں کچھ نہ دیا۔ مجبورا میر کر آگرہ چھوڑنا پڑا اور تلاش معاش کے لئے دہلی پہنچے ۔ اور اپنے سوتیلے ماموں خان آرزو کے یہاں قیام کیا لیکن بدقسمتی سے میر یہاں بھی سکون سے رہ سکے کیونکہ سوتیلے بھائیوں کے اکسانے پر خان آرزو نے بھی گھر سے نکال دیا۔ اسکے بعد میر پر جنون کی حالت طاری ہوئی کچھ مدت کے بعد ہوش ٹھکانے آئے تو تلاش معاش کے سلسلے میں بھٹکتے پھرے کبھی متھرا گئے کبھی اجمیر ۔ جب دہلی برباد ہوگئی تو میرلکھنو پہنچے۔ لکھنو میں انکی بڑی عزت افزائی ہوئی کیونکہ ان کے لکھنو پہنچنے سے پہلے انکی شاعری کا چرچہ وہاں پہنچ چکا تھا۔ نواب آصف الدولہ نے میر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے بعد میر نے لکھنو میں ہی باقی زندگی بسر کی۔ میر کا انتقال ۸۷سال کی عمر میں ۱۸۱۰ء میں لکھنو میں ہی ہوا اور وہی فن کئے گئے۔

 ادبی خدمات اور خصوصیت کلام  :

 آپ نے کثرت کے ساتھ تصنیفات کی ہیں آپ کا زیادہ تر سر مایہ غزل میں ہے۔ انہوں نے ڈیڑھ ہزار سے زائد غزلیں کہی ہیں جو آپ کے چھ اردو دواویں میں بکھری پڑی ہیں ۔ ایک دیوان فارسی میں ہے۔ ایک رسالہ فیض میر اور تذکرہ نکات الشعراء شائع ہو چکے ہیں ۔ قصیدے بہت کم لکھے ہیں۔ مثنویاں بھی کہی ہیں ۔ اور اس صنف میں کامیاب رہے۔ منظرکشی اعلی پایہ کی ہیں لیکن واردات عشق کا بیان غضب کا ہے۔ خارجی مضامین کی طرف میر کے کلام کی سب سے اہم خوبی اس کی سادگی اور روانی ہے۔ میر کو اردو غزل کا بادشاہ کہا گیا ہے ان کی غزلیات میں میر کے تمام پہلوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ تصوف کے ساتھ زمانہ کے دکھ محبت کی ناکامی اور دروغم نے میر کے ذہن پر اثر ڈالا کہ میر کے کلام میں درد اور گداز کا جادو جاگ گیا۔ میر ساری زندگی حسرتوں کی ایک لمبی داستان ہےمیر کو مصیبت کے سوا کچھ نہ ملالیکن اس کی وجہ سے اردو شاعری کو ایسا انمول خزانہ ہاتھ آیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔

غزلیات مع تشریح:-میر تقی میرؔ
غزلیات مع تشریح میر تقی میرؔ
میر تقی میر

غزل نمبر 1
     ہمارے  آگے تیرا جب کسو نے نام لیا          
         دل ستم زدہ کو ہم نے تھام تھام لیا
تشریح:- میر تقی میر ؔ اس شعر میں اپنے محبوب سے مخاطب ہو فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب جب کسی نے تمہارا نام میرے سامنے لیاتو میرے دل میں شدید اضطراب پیدا ہوگیا،  پھر بڑی مشکل سے میں اپنے دل پر قابو پا سکا۔
     وہ کج روش نہ ملا راستی میں مجھ سے کبھو      
       نہ سیدھے طرح سے اُن نے میرا سلام لیا
تشریح:-       میر تقی میر فرماتے ہیں کہ میرے محبوب نے مجھ سے احسن سلوک نہیں کیا بلکہ ہمیشہ مجھ پر ظلم و ستم ہی کیا ۔یہاں تک کہ اگر کبھی راستے میں ملا تو میر ی سلام کا جوب بھی نہیں دیا ،گویا اس نے کبھی بھی  محبت اور خلوص کا اظہار نہیں کیا ۔
3۔   میرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں      
            تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
تشریح:         میر تقی میرؔ فرماتے ہیں   کہ میں نے زندگی میں ہمیشہ نا کامیاں اور افسردگی دیکھی ہے مگر اس کے باوجود  محبت کے رشتے میں سلیقے سے کام لیا ۔محبوب نے جتنے بھی ظلم و ستم کئے میں نے انہیں خاموشی سے برداشت کیا اور ان سے کوئی  گلہ نہیں  کیا ۔
4       اگر چہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میر ؔ  
            پر میرے شعر نے روئے زمین تمام لیا
تشریح:         میر تقی میرؔ اس شعر میں صنعت تعلّی سے کام لے کر  فرماتے ہیں  ۔اگر چہ میں بند کمرے میں رہنے والا ایک معمولی  انسان ہوں  مگر میرے کلام میں اتنی خوبیاں ہے کہ سارےعالم میں اسی کے چرچے ہیں ۔
                         غزل نمبر 2
     ہگامہ گرم کن جو دل نا صبور تھا          
        پیدا ہر ایک نالے سے شور نشور تھا
تشریح:         میر تقی میرؔ  اپنی فریاد اور آہ وزاری  کی شدت کو قیامت کے شور سے تشبیہ دے کر فرماتے ہیں کہ میرے دل میں  برداشت کی قوت باقی نہیں رہی ہے اب  اس قدرفریاد اور آہ وزاری کرتا ہے جیسے قیامت برپا ہوئی ہو۔
     پہنچا جو آپکو تو میں پہنچا خدا تئیں      
        معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا
تشریح:         میر تقی میرؔ فرماتے ہیں  کہ  پہلے میں خود سے نا آشنا تھاا  سلئے خدا سے دور اور نا آشنا  تھا  ۔اب چوکہ میں خود سے آشنا ہوا ہوں اسلئے خدا کے بہت قریب آگیا ہوں ،گویا خدا کے قریب آنے کے لئے  خود سے آشنا ہونا ضروری ہے ۔
     آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم      
         یک شعلہ برق خرمن صد کوہِ طور تھا ۔
تشریح:         میر تقی میرؔ فرماتے ہیں کہ اے موسیٰؑ  آپ کو خدا کا جلوہ دیکھنے کا بڑا شوق تھا لیکن آپ اس کے ایک جلوہے کو برداشت نہیں کر پائے اور بے ہوش ہو کر گر پڑے ،اگر آپکے اندر حقیقی محبوب کو دیکھنے کا شوق عشق کی حد تک ہوتا تو آپ کے عشق کے جلوے کوہ طور کو ریزہ ریزہ کرتے ۔گویا حقیقی محبوب کا دیدار کرنے کے انسان کو اپنے اندر عشق کی آگ کو تیز کرناپڑتا ہے ۔
     کل پاوں ایک کاسہ سر پہ جو آگیا             
           یکسر استخواں شکستوں سے چور تھا
          کہنے لگا دیکھ کر چل راہ بے خبر          
           میں بھی کبھی کسی کا سر پُر غرور تھا
تشریح:         میر تقی میرؔاس قطعہ میں فرماتے ہیں کہ کل راہ چلتے چلتے میرا پاؤں اچانک ایک مرے ہوئے انسان کی کھوپڑی پر پڑا تو اس میں زبان آگئی اور مجھ سے مخاطب کو کر کہنے لگی اے مغرور انسان زرا دیکھ کے چل۔غرور کو چھوڑ اور ندامت کی راہ اپنا لے  کیونکہ  میں بھی  کسی گھمنڈی  شخص کا سر تھا اور آج وہ سارا غرور خاک میں مل چکا ہے  اور لوگ مجھے روندھے  جارہے ۔اس قطعہ میں شاعر دراصل یہ سمجھا نے کی کوشش کرتا ہے کہ اس دنیا وی زندگی پر انسان کو غرور نہیں کرنا چا ہے کیونکہ یہ دائمی زندگی نہیں بلکہ فانی ہے  اور ایک نہ ایک دن یہاں سے جانا ہے یہ دنیا کی شہرت ،عیش و عشرت ،کمایا ہوا معاش یہی پر چھوڑنا ہے ۔
5۔     تھا وہ تو رشک حور بہشتی  ہمیں میں میر ؔ   
         سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا
تشریح:         میر تقی میرؔ اپنے محبوب کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا مھبوب جنت کی حور کی طرح خوبصورت ہیں ۔ایسا لگتا ہے جیسا اسکو بہشت سے  زمین پر لایا گیاہے لیکن پہلے میں یہ نہیں سمجھ نہیں پا یا تھا  اب چونکہ وہ مجھ سے دور ہو چکا   ہے اس لئے  اس کی خوبصورتی  اور حسن کا احساس ہوگیا ہے

 

س1:  شاعر نے دل ستم زدہ کو کیوں تھام لیا ۔

جواب: شاعر کے سامنے کسی  نے اس کے محبوب کا نام لیا تو اس کا دل بے قرار و بے قابو ہوگیا۔ اسلئے شاعر نے  اپنے دل کو تھام لیا ۔

س2:  دونوں غزلوں میں ایسی اشعار تلاش کیجئے جس میں شاعرانہ تعّلی موجود ہو؟

جواب:-        اگر چہ گوشہ گزیں ہوں میں شاعروں میں میر ؔ              پر میرے شعر نے روئے زمین تمام لیا

س3: کھوپڑی نے کون سی پتے کی بات بتائی؟

جواب:  کھوپڑی نے یہ بات بتائی کہ انسان کو  گھمنڈ نہیں ہونا  چاہیے۔بلکہ ندامت کے ساتھ رہنا چاہے کیونکہ آخر یہ غرور یہی پر ر ہ جاتا ہے اور انسان خاک میں مل جاتا ہے ۔

س3:  دوسری غزل کے تیسرے شعر میں حضرت موسیٰؑ سے متعلق تلمیح کو بیان کیجیئے۔

جواب:          دوسری غزل  کے تیسرے شعر میں شاعر نے"کلیم" کو تلمیح کے طور پر استعمال کیا ہے۔کلیم اللہ حضرت موسیٰؑ کا لقب تھا یہ لقب انکو اسلئے ملا تھا  کیونکہ وہ اللہ تعالی سے ہم کلام ہوتے تھے ۔ایک دفعہ موسیٰؑ نے خدا سے التجاء کی کہ مجھے اپنا دیدار کرادے۔پھر اللہ نے انہیں کوہ طور پر بلایا اور اپنے نور کی ایک نورانی چمک دکھائی تو کوہ طور جل  کر راکھ ہو گیا اور موسیؑ وہی پر گر پڑے ۔      

 

 

 

 

 

 

2 comments:

  1. You doing a splendid job, i find this website very useful and handy for urdu subject both as a student and as a teacher. Stay blessed

    ReplyDelete