تہنا انصاری
تنہا انصاری |
اصل نام حسین علی انصاری ہے اور تخلص تنہا تھا۔آپ 4 فروری 1914ء میں دلنہ بارہمولہ میں تولد ہوئے آپ کے والد کا نام حسن علی انصاری تھا۔ آپ کے والد عربی فارسی کے جید عالم ہونے کے ایک ذہین استاد بھی تھے۔ آپ کےدادا اترپردیش سے ہجرت کرکے کشمیر آئے تھے اور یہاں مستقل سکونت اختیار کی تھی۔ تنہا نے ابتدائی تعلیم دلنہ میں حاصل کی ۔ مالی مشکلات کی وجہ سے آپ کو مڈل پاس کرنے کے بعد ہی ملازمت کرنی پڑی۔ پہلے محکمہ امداد باہمی میں بحیثیت محرر اپنے فرائض انجام دئے اسکے بعد محکمہ تعلیم میں بحیثیت مدرس تعینات ہوئے اور زندگی کے آخری ایام تک اسی منصب پر اپنی خدمات انجام دیتے رہے۔دوران ملازمت انہوں نے جامعہ پنجاب لاہور سے میٹرک ، ایف ۔ ائے ، منشی فاضل اور ادیب فاضل کے امتحانات پاس کئے۔ 1954 ء میں کشمیر یونیورسٹی سے بی ۔ائے، اور بی ایڈ کی ڈگریاں حاصل کیں۔ اسکے بعد سری نگر ٹیچرس ٹرینگ کالج میں بحیثیت اردو مدرس تعینات ہوئے۔ اسکے بعد کچھ اور مدارس کے مدیر بھی رہے ۔1960 ء میں انہیں حکومتِ ہند نے سال کا بہترین استاد ہو نے کی بنا ء پر قومی ایواڈ سے نوازا گیا۔آپ کا شمار کشمیر کے صفِ اول کے شاعروں میں ہوتا ہے۔ آپ نے اردو زبان کے علاوہ کشمیری زبان میں بھی شعر کہے۔ آپکے دو مجموعے "شبنمستان"(اردو) اور" فرات"(کشمیری) شائع ہو چکے آپ نے شاعری کے علاوہ نثر نگاری میں اہم مقام حاصل کیا ۔ اس سلسلے میں آپ کے خطوط کا مجموعہ" خاطر طرب" کافی مشہور ہے۔ اسکے علاوہ آپ علاوہ "تعلیم زبان،" اور " صحیح اردو بولے" تصانیف بھی شائع ہو چکے ہیں ۔ آپ ریٹائرمنٹ سے انیس دن قبل 23 فروری 1969 ء کو داعی اجل کو لبک کہہ گئے ۔
تنہا انصاری غزلیات مع تشریح
تنہا انصاری Tanha ansari |
غزل
نمبر 1
1۔ مری ہر صبح
پر فرقت میں تیری
اندھیرا شامِ غم کا چھا رہا
تشریح : اس شعر میں تنہا انصاری فرماتے ہیں کہ ائے میرے
محبوب جب سے تم میری زندگی سے دور چلے گئے ہو تب سے مجھے اپنی ہر صبح اندھیری
لگ رہی ہے ۔ یعنی شاعر محبوب کے بغیر بے چین اور افسردہ ہے ۔
2۔ کئے جاتاہوں جتنا مداوا
غم دل اور بڑھتا جا رہا ہے
تشریح : اس شعر میں تنہا انصاری فرماتے ہیں کہ محبو ب کی
جدائی کی وجہ سے دل میں جو درد پیدا ہو گیا
ہے اس پر کوئی علاج اثر نہیں کرتا ۔ میں جتنا بھی اس بے قرار دل کو علاج کرتا ہوں یہ درد
اوربڑھتا جارہا ہے ۔
3۔ میری دنیا سے
کٹ کر جانے والے
تصور کیوں
تیرا تڑ پاتا رہا ہے
تشریح : اس شعر میں تنہا انصاری فرماتے ہیں کہ میرا محبوب میری زندگی سے چلا گیا ہے لیکن اس
کا خیال مجھے بار بار آتا ہے اور مجھے بے چین کر دیتا ہے ۔
4۔ نقاب رخ الٹ
کر کس نے رکھ دی
فلک پر چاند
بھی شرما رہا ہے
تشریح : اس شعر میں تنہا انصاری اپنے محبوب کی خوبصورتی کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میرا محبوب اس قدر
خوبصورت ہے ، جب اس نے اپنا نقاب اٹھایا تو آسمان پر چاند بھی اس کی خوبصورتی کو
دیکھ کر شرمانے لگا ۔
5۔ خیال پرسش
اوعمال تنہا
ابھی سے
روح کو تڑپا رہا ہے
تشریح : تنہا انصاری مقطع
میں فرماتے ہیں کہ میں زندگی کوئی نیک کام نہیں کیا صرف گناہ ہی گناہ
کئے کل خدا کے سامنے کیا جواب دو ں ۔ جب یہ خیال آتا تو روح کانپ
اُٹھتی ہے
غزل
نمبر 2
1۔ تیری فرقت میں مجھ ہر گڑی جو کچھ گزرتی ہے
سمجھتاخودہوں لیکن تم کوسمجھانا نہیں آتا
تشریح : اس شعر میں تنہا انصاری فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب تمہارے ہجر میں
میری زندگی بے سکون اور افسردہ ہو گئی ہے ۔جس کا احساس میں ہر لمحہ
ہوتا ہے لیکن اتنی طاقت نہیں کہ میں تم کو
بھی سمجھا سکوں۔
2۔ میں گل ہوں
مسکراتا ہوں طوفان کے عالم میں
خزان کے
مند جھونکوں میں مرجھا نا نہیں آتا
تشریح : اس شعر میں تنہا انصاری فرماتے ہیں کہ میں اس گل کی
طرح ہو ں جس کا خاتمہ نہ طوفان کر سکتا اور نہ ہی خزان کے تند جھونکے ۔ گویا شاعر کہتا ہے کہ میں با ہمت ہوں کوئی
بھی تکلیف یا مصیبت میر ا کچھ بھی نہیں بگاڑسکتا ۔
3۔ شکستہ ناؤ
اور موجوں کا تلاطم یہ
ہوں کچھ
بھی ساتھیومجھ کو تو گھبرانا نہیں آتا
تشریح : اس شعر میں تنہا انصاری فرماتے ہیں کہ میں جانتا ہوں کہ میری زندگی کی کشتی ٹوٹی ہوئی
ہے یہ تلاطم خیز موجوں کا مقابلہ نہیں
کرسکتی لیکن یہ جانے کے با وجود بھی
میں گھبراتا نہیں ہوں ۔
گویا شاعر زندگی کے کسی بھی مصیبت
سے نہیں گبھراتا بلکہ ہمیت اور
استقلال کے ساتھ اس کا مقابلہ کرتا ہے ۔
4۔ چٹانوں کو
ہٹانا ٹھوکروں سے مجھ کو آتا ہے
مگر نازک
سی امیدوں کو ٹھکرانا نہی آتا
تشریح : اس شعر میں تنہا انصاری فرماتے ہیں کہ زندگی کے راستے میں آنے والےچٹانوں یعنی مشکلات
کو ہٹانا مجھ کو آتا ہے لیکن کسی کی
امیدیں ٹھکرانا مجھ کو نہیں آتا ۔
5۔ تڑپنے میں ہی
لطف زندگی حاصل ہو ا تنہا
تڑپتا خود توہوں اوروں کو ٹڑپانا نہیں آتا
تشریح : اس شعر میں تنہا انصاری فرماتے ہیں کہ میں زندگی میں ہمیشہ تڑپا ہوں ۔زندگی کا سارا
مزہ اسی تڑپنے میں ہی حاصل ہوا گویا زندگی
میں خود تو تڑپا ہوں لیکن کسی کو دکھ یا تکلیف نہیں پہنچایا ۔
سوالات:
سوال1:
مداوا سے کیا مراد ہے؟
جواب:
مداوا سے مُراد دوا یا علاج ہے
سوال2:
شاعر کو پرشش اعمال کا خیال کیوں خوفزدہ کرتا ہے؟
جواب:
شاعر کو پرسش اعمال خیال اسلئے کوفزہ کرتا ہے کیوںکہ وہ خود کو گناہ گار تصور کرتا
ہے۔
سوال
نمبر3: خزاں کے تند جھونکوں سے کیا ماد ہے؟
جواب
: خزاں کے تند جھنکوں سے مراد مصائب و آلام ہیں ۔
سوال4:
شاعر نے موجوں کے طلاطم کے ساتھ شکستہ ناؤ کا استعمال کرکے کس بات پر زور دیا ہے ؟
جواب:
شاعر نے موجوں کے طلاطم کے ساتھ شکستہ ناؤ کا استعمال کرکے اس بات پر زور دیا ہے
کہ اگر آدمی کے حوصلے بلند ،مقاصد جلیل ہو تو حقیر قلیل ذرائع کے ساتھ بھی سخت سے سخت حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے
No comments:
Post a Comment