الفاظ |
معنی |
الفاظ |
معنی |
لپکا |
عادت |
آفاق |
آسمان |
غرور |
ناز،فخر |
آشفتہ سری |
دیوانگی |
موسمِ گل |
موسم بہار |
تاج وری |
بادشاہی |
آشفتہ |
پریشان |
بیدادگری |
ظلم |
نا موس |
عزت ،شہرت |
زنداں |
قید خانہ |
سوحتہ |
جلا ہوا |
مداوا |
علاج |
داور |
حاکم |
کار گہہ |
کارخانہ |
غزل
نمبر 1
جس سر کو غرور آج ہے تاج وری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
تشریح
: میر تقی میر فرماتے ہیں کہ یہ دنیا فانی
ہے یہاں کوئی بھی چیز دائمی رہنے والی نہیں ہے ۔ آج جو بادشاہ ہے اور اپنی سلطنت
اور تخت و تاج پر غرور کرتا ہے یہ ہمیشہ
رہنے والا نہیں ہیں ۔یہ ایک نہ ایک دن ختم
ہو جائے گا اسلئے اپنی شان و شوکت اور آن و بان پر تکبر اور غرور نہیں کرنا چاہیے
۔ میر اس لئے یہ کہتے ہیں کیونکہ میر نے دلی کو بربار ہوتے دیکھا ہے اور بہت سے
سلاطین کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے
2۔ آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لُٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
تشریح
: میر تقی میر اس شعر میں فرماتے ہیں کہ
اس دنیاوئی زندگی کے سفر سے کوئی سلامت نہیں لوٹا
بلکہ اس کے جو ساز و سامان زندگی
گزارنے کے لئے تھےوہ سب ختم ہو کے ہی لوٹنا پڑا ۔جوانی میں اس کے
پاس تمام صلاحتیں اور قوتیں تھیں ۔ جوں جوں اس کا وقت قریب آتا
ہے اس کی تمام صلاحتیں اور قوتیں ختم ہوتی ہیں ۔جوانی کا زور ، قوت بینائی ، قوت
سماعت سب ساتھ چھوڑ
دیتی ہیں اور اس طرح انسان اپنا سب سامان لُٹا کر یہاں سے چلا جاتا ہے ۔
3۔ زنداں میں بھی شورش
نہ گئی اپنے جنوں کی
اب سنگ مداوا ہے آشفتہ سری کا
تشریح
: میر تقی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ جب کسی انسان کی دیونگی بڑھ جاتی ہے تو اس کو
قید خانے میں قید کیا جاتا ہے لیکن میری دیونگی اس قدر شدید ہے کہ دوران قید بھی میری دیونگی کم نہیں ہوئی ۔ اس
لئے اس دیونگی کا واحد علاج مجھے یہی نظر
آتا ہے کہ کسی پتھر سے سر ٹکریا جائے اور اپنی زندگی کا خاتمہ کیا جائے ۔
4۔ ہر زخم دور محشر سے
ہمارا
انصاف طلب ہے تیری بیداد گری گا
تشریح
: میر تقی میر محبوب سے مخاطب ہو کر
فرماتے ہیں کہ اے میرے محبوب تم
نے مجھ پر شدید ظلم و ستم کیے ہیں لیکن
میں روز محشر میں اللہ سے تمہارے ان ظلموں
اور ستموں کا انصاف طلب کرو گا ۔گویا دنیا میں کتنے ہی ظلم تم مجھ پر کرو لیکن
قیامت کے دن تجھے ضرور حساب دینا ہوگا ۔
5۔ اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہی دیکھو
آئینے کو
لپکایا ہے پریشان نظری کا
تشریح : میر تقی میر
فرماتے ہیں کہ میں اپنے محبوب سے اس قدر عشق رکھتا ہوں اور وہ اتنا خوبصور ت ہے کہ میں جہاں بھی دیکھتا ہو ں اسی کا عکس نظر آتا ہے اور جب وہ آئینہ دیکھتا ہے تو آئینہ بھی اس کا
حسن دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے ۔
6۔ صد موسم گل ہم کو تہہ بال ہی گذرے
مقدور نہ دیکھا
کبھو بے بال و پر ی کا
تشریح : میر تقی میر
فرماتے ہیں کہ میری زندگی میں لا تعداد بہار کے موسم آئے مگر وہ مجھے مسرت نہ بخش
پائے کیونکہ میں ہمیشہ بے سر و سامانی کے
حالات میں رہا ۔
7۔ ٹک میر ؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے
کیا یار بھروسہ
ہے چراغ سحری کا
تشریح : میر تقی میر اپنے
دوست سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ میں غموں اور پریشانیوں سے چور ہو چکا ہوں اب میرا وجود کسی بھی وقت ختم ہونے والا ہے
اسلئے جلدی سے میری ملاقات کو آؤ
کیوں کہ میں اب زیادہ دن جینے والا
نہیں ہوں ۔
غزل نمبر 2
1۔جیتے جی کوچہ دلدار سے جایا نہ گیا
اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا
تشریح
: میر تقی میرؔ اس شعر میں فرماتے ہیں ترک محبت میر ےلئے ممکن نہ ہو سکا ۔ اس لئے زندگی بھر محبوب کی گلی کو چھوڑ نہ
سکا اور اس کی گلی میں آتا جاتا رہا ۔ اسطرح اسکی گلی کا سایہ میرے سر پر ہمیشہ
رہا۔
2۔ وہ کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا
ہم سے حال تباہ اپنا دیکھا یا نہ
گیا
تشریح
: میر اس شعر میں فرماتے ہیں کہ کل میرا
محبوب بڑی دیر تک میری جانب متوجہ رہا مگر میں اپنی تباہ حال صورت لے اس کے سامنے نہ جا سکا۔
3۔ پاس ناموس محبت تھا کہ فرہاد کے پاس
بے ستوں سامنے سے اپنے اٹھایا نہ گیا
تشریح
: میر تقی میر فرماتے ہیں کہ فرہا د اپنے محبوب سے سچا عشق رکھتا تھا اسلئے اسے اپنے عشق کا عزت اور احترام تھا اسی احترام کو ملحوظ ِ نظر رکھ کر اس نے ستون پہاڑ سے اپنے محبوب کے محل تک دودھ کی نہر
نکالی تھی۔
یا
میر فرماتے ہیں کہ فرہاد اپنے محبوب شیریں سے اس
قدر محبت رکھتا تھا کہ اس نے ستون پہاڑ کو چیر کر
شیریں کے محل تک دودھ کی نہر نکال دی ۔
4۔ خاک تک کوچہ دلدار کی چھانی ہم نے
جستجو کی پہ دل گمشدہ پیا نہ گیا
تشریح:
میر تقی میر فرماتے ہیں کہ میں اپنے گمشدہ
دل کی تلاش مین اکثر محبوب کے کوچے کا چکر
لگا تا رہا لیکن میر ا گمشدہ دل مجھے نہ مل سکا
گویا میں نےجب محبوب کو دل دیا تو
اس کے بعد اس کا کہیں پتہ نہ چل سکا ۔
5۔ مہ نے آسا منے شب یاد دلایا تھا اسے
پھر وہ تا صبح سر سے میر جی سے بھلا یا نہ گیا
تشریح
: میر تقی میر فرماتےہیں کہ جب چاند نکلا
تو اسکی خوبصورتی کو دیکھ کر مجھے اپنا محبوب شدت سے یا د آیا اور رات بھر
میں اس کے حیالوں میں کھویا رہا ۔
6۔ جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزون کیجئے
درد دل ایک غزل میں سنا یا نہ گیا
تشریح
: میر تقی میر فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں مزید غرلیں لکھو کیونکہ
یہ ایک غزل میرے دل کا حال بیان کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ۔
7۔ زیر شمشیر ستم میرؔ تڑ پنا کیسا
سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا
تشریح
: میر تقی میرمحبوب کے
سامنے اپنی بے بسی اظہار کرتے ہو ئے خود سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں
کہ سنگ دل محبوب کی تلوار کے نیچے
تڑپنے سے کوئی فائد ہ نہیں کیونکہ اس کے ستم سے بچا نہیں جا سکتا یہ ظلم و ستم اس کی روایت رہی ہے ۔
بہترین
ReplyDelete