تازہ ترین

Friday, May 21, 2021

سبق میر تقی میر|| غزلیات|| جس سر کو غرور آج ہے یاں تاج وری کا || جیتے جی کو چہ دلدار س جایا نہ گیا Class 12th Urdu Notes

 

حصہ شاعری برائے درجہ بارویں

میر تقی میر

سوال نمبر 1: غزل کی تعریف کیجئے۔

جواب:                                                                                                                                                                                                                                                                            غزل 

غزل اردو شاعری کی ایک ہر دل عزیز صنف سخن ہے۔ اردو شاعری کا سب سے بڑا سرمایاغزل کی شکل میں موجود ہے ۔غزل کے معنی "محبوب سے باتیں کرنا "۔اس کا مطلب غزل میں حسن وعشق کی باتیں ہوتی ہے۔ لیکن غزل صرف عشق ومحبت تک محدو نہیں بلکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ اس میں سماجی، سیاسی، معاشرتی مسائل فلسفہ وتصوف اور انسانی زندگی کے مختلف پہلوں کی ترجمانی کی جاتی ہے۔ غزل کے ہر شعر میں الگ مضمون ہوتا ہے یعنی اس کے اشعار جداگانہ ہوتے ہیں۔ اگر کسی غزل کے اشعار ایک ہی موضوع پر ہو یعنی ان میں تسلسل ہوتو اس سے غزل مسلسل کہا جاتا ہے۔ غزل کے پہلے شعر کو مطلع کہتے ہیں۔ اس کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوتے ہیں مطلع کے بعد اگر دوسرا شعربھی ہم قافیہ ہو تو اس سے حسن مطلع کہتے ہیں۔ غزل کے آخری شعرکو مقطع کہتے ہیں۔ غزل کا سب سے عمدہ شعر بیت الغزل یاشاہ غزل کہلاتا ہے۔ ردیف کے بغیربھی غزلیں لکھی جاتی ہیں۔ ایسی غزلیں غیر مردف کہلاتی ہیں ۔

سوال نمبر 2:   اردو غزل کی ابتدا و ارتقاء پر ایک نوٹ لکھئے ۔

جواب:۔ اردو غزل گوئی کا آغاز دکن میں ہوا۔ سلطان محمد قلی قطب شاہ اردو کے پہلے غزل گو شاعر ہے لیکن باشعور غزل گوولی دکنی ہے۔ جنہوں نے اردو غزل کو بلندی عطا کی ۔ اس دور کے دوسرے شعرا جنہوں نے ولی کی آمد کے بعد دہلی میں اردو غزل کو ترقی دی ان میں آبروؔ، ناجیؔ، یکرنگؔ، وغیرہ شامل ہیں۔ اس کے بعد دہلی کی شاعری کے ابتدائی دور میں شاہ حاتم ؔنے زبان محاوروں اور الفاظ کی اصلاح کی طرف توجہ دی۔ آگے چل کر سودا،ؔ درد ؔ،میر ؔنے اس صنف کی آبیاری کی ۔ اس دور میں غزل زبان و بیان سادگی ، صفائی اور لطف واثر کی جو خوبیاں پائی جاتی ہیں اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔انیسویں صدی کے آغاز سے شاعری کا جو دور شروع ہوتا ہے وہ مختلف اعتبار سے اردو غزل کے لئے انقلاب کا دور ہے ۔غزل میں بلند اور رنگارنگ مضامین نازک خیالات ،نیا انداز بیان پیدا ہوا۔ اس دور میں دہلی میں مومنؔ، غالبؔ، ذوقؔ، نے اس صنف کو ترقی دی لکھنو میں وزیرؔ، جراتؔ، ناسخؔ، وغیرہ نے غزل میں ایک نیا انداز قائم کیا۔ اس کے بعد اقبالؔ، مجازؔ اور فیض ؔنے اس صنف کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں پیدا کیں دور جدید میں غزل کوخارجی آب و تاب سے نکال کر داخلی حسن کی طرف توجہ کی گئی غزل کو نہ صرف رومانی نشاط سے بھر دیا گیا بلکہ نئی  اوردلچسپ تشبیہات و استعارات سے اس کے مرتبے کو بلند کر دیا گیا ۔حسرت موہانیؔ، عزیز لکھنویؔ ، فانیؔ بدایونی ،جگرؔ مراد آبادی، اصغرؔگونڈوی اور فراقؔ گورکھپوری نے سنجیدگی اور پاکیزگی ،رومانیت اور حقیقت، لطافت اور نزاکت سے غزل کو اردو شاعری کی لافانی صنف بنادیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج غزل میں زندگی کے حقائق ، فلسفہ کے نکات کے ساتھ ساتھ سیاسی معاملات اور وطن پرستی کے خیالات وغیرہ اس میں سب کچھ پایا جاتاہے۔

سوال4: تلمیح کسسے کہتے ہیں۔

جواب: یہ ایک شاعری اصطلاح ہے جب شاعر شعر میں کسی تاریخی واقعہ یا نیم تاریخی واقع کی طرف اشارہ کرتاہے تو اسےتلمیح کہتے ہیں

٭مثلا یہ ا شعار

 ابن مریم ہوا کرے کوئی ۔                                                                                                                               میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

 (ابن مریم حضرت عسیٰؑ تھے جو بیماروں کا علاج کرتے تھے۔ ابن مریم تلمیح  کے طور پراستعمال کیا گیا)

 ۲) کیاوہ نمرود کی خدائی تھی۔          بندگی میرا بھلا نہ ہوا                  

(نمرودابرا ہیم ؑ کے وقت کا ظالم بادشاہ تھا جس نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا اس شعرمیں نمرود تلمیح کے طورپراستعمال کیا گیاہے) 

سوال نمبر۵: میرتقی میر کے حالات زندگی قلمبند تھے۔ 

جواب:۔ میر تقی نام اور تخلص میر تھا1723ءمیں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد علی تھا۔ میردس سال کے ہوئے ان کا والد کا انتقال ہو گیا۔والد کے انتقال کے بعد سوتیلے بھائیوں نے میر کو ستانا شروع کیا ۔ والد کے جائیداد میں کچھ نہ دیا۔ مجبورا میر کر آگرہ چھوڑنا پڑا اور تلاش معاش کے لئے دہلی پہنچے ۔ اور اپنے سوتیلے ماموں خان آرزو کے یہاں قیام کیا لیکن بدقسمتی سے میر یہاں بھی سکون سے رہ سکے کیونکہ سوتیلے بھائیوں کے اکسانے پر خان آرزو نے بھی گھر سے نکال دیا۔ اسکے بعد میر پر جنون کی حالت طاری ہوئی کچھ مدت کے بعد ہوش ٹھکانے آئے تو تلاش معاش کے سلسلے میں بھٹکتے پھرے کبھی متھرا گئے کبھی اجمیر ۔ جب دہلی برباد ہوگئی تو میرلکھنو پہنچے۔ لکھنو میں انکی بڑی عزت افزائی ہوئی کیونکہ ان کے لکھنو پہنچنے سے پہلے انکی شاعری کا چرچہ وہاں پہنچ چکا تھا۔ نواب آصف الدولہ نے میر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے بعد میر نے لکھنو میں ہی باقی زندگی بسر کی۔ میر کا انتقال ۸۷سال کی عمر میں ۱۸۱۰ء میں لکھنو میں ہی ہوا اور وہی فن کئے گئے۔

 سوال6: میر کے ادبی خدمات اور خصوصیت کلام   کا جائزہ پیش کیجئے۔

جواب :۔ آپ نے کثرت کے ساتھ تصنیفات کی ہیں آپ کا زیادہ تر سر مایہ غزل میں ہے۔ انہوں نے ڈیڑھ ہزار سے زائد غزلیں کہی ہیں جو آپ کے چھ اردو دواویں میں بکھری پڑی ہیں ۔ ایک دیوان فارسی میں ہے۔ ایک رسالہ فیض میر اور تذکرہ نکات الشعراء شائع ہو چکے ہیں ۔ قصیدے بہت کم لکھے ہیں۔ مثنویاں بھی کہی ہیں ۔ اور اس صنف میں کامیاب رہے۔ منظرکشی اعلی پایہ کی ہیں لیکن واردات عشق کا بیان غضب کا ہے۔ خارجی مضامین کی طرف میر کے کلام کی سب سے اہم خوبی اس کی سادگی اور روانی ہے۔ میر کو اردو غزل کا بادشاہ کہا گیا ہے ان کی غزلیات میں میر کے تمام پہلوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ تصوف کے ساتھ زمانہ کے دکھ محبت کی ناکامی اور دروغم نے میر کے ذہن پر اثر ڈالا کہ میر کے کلام میں درد اور گداز کا جادو جاگ گیا۔ میر ساری زندگی حسرتوں کی ایک لمبی داستان ہےمیر کو مصیبت کے سوا کچھ نہ ملالیکن اس کی وجہ سے اردو شاعری کو ایسا انمول خزانہ ہاتھ آیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔

سوال نمبر 7: مختصر جواب طلب سوالات

 سوال نمبر2: مختصر جواب طلب سوالات۔ )

1۔ غزل کے لغوی معنی کیا ہے۔

جواب: لغت کی رو سے غزل اس کلام کو کہتے ہیں جس میں عورتوں کے حسن و عشق کا ذکر ہو۔

 ۲) غزل کے پہلے شعر کو کیا کہتے ہیں

 ج) غزل کے پہلے شعرکومطلع کہتے ہیں۔

 ۳) اردوغزل گوئی کا آغاز کہا ں سے ہوا۔

جواب: أردوغزل گوئی کا آغاز دکن سے ہوا۔ 

4) پہلے غزل گو شاعر کا نام کیا ہے۔ 

ج) پہلے غزل شاعر کا نام قلی قطب شاہ ہے۔ 

۵) دبستان لکھنوکی بنیا دکسی شاعر نے ڈالی۔

ج) ناسخ اور آتش نے دبستان لکھنو کی بنیاد ڈالی۔ 

5) غزل مسلسل کسے کہا جاتا ہے؟

) غزل مسلسل اس غزل کو کہتے ہے جسکے سب اشعار ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہوتے ہیں اور ایسی غزل میں کسی خاص موضوع کوہی شروع سے آخر تک زیر بحث لایا جاتا ہے ایسی  غزليات بہت کم ہے۔

 

الفاظ

معنی

الفاظ

معنی

لپکا

عادت

آفاق

آسمان

غرور

ناز،فخر

آشفتہ سری

دیوانگی

موسمِ گل

موسم بہار

تاج وری

بادشاہی

آشفتہ

پریشان

بیدادگری

ظلم

نا موس

عزت ،شہرت

زنداں

قید خانہ

سوحتہ

جلا ہوا

مداوا

علاج

داور

حاکم

کار گہہ

کارخانہ

 

 

غزل نمبر 1

جس سر کو غرور آج ہے تاج وری کا

کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا

تشریح : میر تقی میر فرماتے ہیں  کہ یہ دنیا فانی ہے یہاں کوئی بھی چیز دائمی رہنے والی نہیں ہے ۔ آج جو بادشاہ ہے اور اپنی سلطنت اور تخت و تاج پر غرور کرتا ہے  یہ ہمیشہ رہنے والا نہیں ہیں  ۔یہ ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گا اسلئے اپنی شان و شوکت اور آن و بان پر تکبر اور غرور نہیں کرنا چاہیے ۔ میر اس لئے یہ کہتے ہیں کیونکہ میر نے دلی کو بربار ہوتے دیکھا ہے اور بہت سے سلاطین کو برباد ہوتے ہوئے دیکھا ہے

2۔ آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت

     اسباب لُٹا راہ میں یاں ہر سفری کا

تشریح : میر تقی میر اس شعر میں فرماتے  ہیں کہ اس دنیاوئی زندگی کے سفر سے کوئی سلامت نہیں لوٹا  بلکہ  اس کے جو ساز و سامان زندگی گزارنے کے لئے  تھےوہ  سب ختم ہو کے ہی لوٹنا پڑا ۔جوانی میں اس کے پاس  تمام صلاحتیں  اور قوتیں تھیں ۔ جوں جوں اس کا وقت قریب آتا ہے اس کی تمام صلاحتیں اور قوتیں ختم ہوتی ہیں ۔جوانی کا زور ، قوت بینائی ، قوت سماعت  سب ساتھ  چھوڑ  دیتی ہیں اور اس طرح انسان اپنا سب سامان لُٹا کر یہاں سے چلا جاتا ہے ۔

3۔ زنداں میں بھی  شورش نہ گئی اپنے جنوں کی          

اب سنگ مداوا ہے آشفتہ سری کا

تشریح : میر تقی اس شعر میں فرماتے ہیں کہ جب کسی انسان کی دیونگی بڑھ جاتی ہے تو اس کو قید خانے میں قید کیا جاتا ہے لیکن میری دیونگی اس قدر شدید ہے کہ    دوران قید بھی میری دیونگی کم نہیں ہوئی ۔ اس لئے  اس دیونگی کا واحد علاج مجھے یہی نظر آتا ہے کہ کسی پتھر سے سر ٹکریا جائے اور اپنی زندگی کا خاتمہ کیا جائے ۔

4۔ ہر زخم دور محشر  سے ہمارا

انصاف طلب ہے تیری بیداد گری گا

تشریح :  میر تقی میر محبوب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ  اے میرے محبوب   تم نے  مجھ پر شدید ظلم و ستم کیے ہیں لیکن میں روز محشر میں اللہ سے تمہارے ان  ظلموں اور ستموں کا انصاف طلب کرو گا ۔گویا دنیا میں کتنے ہی ظلم تم مجھ پر کرو لیکن قیامت کے دن تجھے ضرور حساب دینا ہوگا ۔

5۔ اپنی تو جہاں آنکھ  لڑی  پھر وہی دیکھو

آئینے کو لپکایا ہے پریشان نظری کا

تشریح : میر تقی میر فرماتے ہیں کہ میں اپنے محبوب سے اس قدر عشق رکھتا ہوں اور وہ اتنا خوبصور ت ہے  کہ میں جہاں بھی دیکھتا ہو ں اسی کا عکس  نظر آتا ہے  اور جب وہ آئینہ دیکھتا ہے تو آئینہ بھی اس کا حسن دیکھ کر حیران ہو جاتا ہے ۔

6۔ صد موسم گل ہم کو تہہ بال ہی گذرے

مقدور نہ دیکھا کبھو بے بال و پر ی کا

تشریح : میر تقی میر فرماتے ہیں کہ میری زندگی میں لا تعداد بہار کے موسم آئے مگر وہ مجھے مسرت نہ بخش پائے   کیونکہ میں ہمیشہ بے سر و سامانی کے حالات میں رہا ۔

7۔ ٹک میر ؔ جگر سوختہ کی جلد خبر لے

کیا یار بھروسہ ہے چراغ سحری کا

تشریح : میر تقی میر اپنے دوست سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں کہ میں غموں اور پریشانیوں سے چور ہو چکا ہوں  اب میرا وجود کسی بھی وقت ختم ہونے والا ہے اسلئے جلدی سے میری ملاقات کو آؤ  کیوں  کہ میں اب زیادہ دن جینے والا نہیں ہوں ۔

غزل نمبر 2

1۔جیتے جی کوچہ دلدار سے جایا نہ گیا

اس کی دیوار کا سر سے مرے سایہ نہ گیا

تشریح : میر تقی میرؔ اس شعر میں فرماتے ہیں ترک محبت میر ےلئے ممکن نہ ہو سکا  ۔ اس لئے زندگی بھر محبوب کی گلی کو چھوڑ نہ سکا   اور اس کی گلی میں آتا جاتا رہا  ۔ اسطرح اسکی گلی کا سایہ میرے سر پر ہمیشہ رہا۔

2۔ وہ کل دیر تلک دیکھتا ایدھر کو رہا

      ہم سے حال تباہ اپنا دیکھا یا نہ گیا

تشریح : میر اس شعر میں فرماتے ہیں کہ   کل میرا محبوب بڑی دیر تک میری جانب متوجہ رہا مگر میں اپنی  تباہ حال صورت لے اس کے سامنے نہ جا سکا۔

3۔ پاس ناموس محبت تھا کہ فرہاد کے پاس

بے ستوں سامنے سے اپنے اٹھایا نہ گیا

تشریح : میر تقی میر فرماتے ہیں کہ فرہا د اپنے محبوب سے سچا عشق رکھتا تھا  اسلئے اسے اپنے عشق کا عزت اور احترام تھا  اسی احترام کو ملحوظ ِ نظر رکھ کر اس نے  ستون پہاڑ سے اپنے محبوب کے محل تک دودھ کی نہر نکالی تھی۔

یا

میر  فرماتے ہیں کہ فرہاد اپنے محبوب شیریں سے اس قدر محبت رکھتا تھا کہ اس نے ستون پہاڑ کو چیر کر  شیریں کے محل تک دودھ کی نہر نکال دی ۔

4۔ خاک تک کوچہ دلدار کی چھانی ہم نے

   جستجو کی پہ دل گمشدہ پیا نہ گیا

تشریح: میر تقی میر فرماتے ہیں کہ  میں اپنے گمشدہ دل کی تلاش مین اکثر محبوب کے کوچے کا  چکر لگا تا رہا لیکن میر ا گمشدہ دل مجھے نہ مل سکا  گویا میں نےجب محبوب کو دل دیا  تو اس کے بعد اس کا کہیں پتہ نہ چل سکا ۔

5۔ مہ نے آسا منے شب یاد دلایا تھا اسے

پھر وہ تا صبح سر سے میر جی سے بھلا یا نہ گیا

تشریح : میر تقی میر فرماتےہیں  کہ جب چاند نکلا تو اسکی خوبصورتی کو دیکھ کر مجھے اپنا محبوب شدت سے یا د آیا  اور رات بھر  میں  اس کے حیالوں میں کھویا رہا ۔

6۔ جی میں آتا ہے کہ کچھ اور بھی موزون کیجئے

                                                                                          درد دل ایک غزل میں سنا یا نہ گیا

تشریح : میر تقی میر فرماتے ہیں کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میں مزید غرلیں لکھو  کیونکہ   یہ ایک غزل میرے دل کا حال بیان کرنے کے لئے کافی نہیں ہیں ۔

7۔ زیر شمشیر ستم میرؔ تڑ پنا کیسا

سر بھی تسلیم محبت میں ہلایا نہ گیا

تشریح : میر تقی  میرمحبوب  کے  سامنے  اپنی بے بسی   اظہار کرتے ہو ئے خود سے مخاطب ہو کر  فرماتے ہیں   کہ  سنگ دل محبوب کی تلوار کے نیچے تڑپنے سے کوئی فائد ہ نہیں  کیونکہ   اس کے ستم سے بچا نہیں جا سکتا   یہ ظلم و ستم اس کی روایت رہی ہے ۔

No comments:

Post a Comment