تازہ ترین

Thursday, May 13, 2021

جگت موہن رواں || رباعیات || دنیا سو طرح سے بہلاتی ہے || حرص و ہوس حیات فانی نہ گئی || کیا تم سے بتائیں عمر فانی کیا تھی

jagath mohan ruwa

     جگت موہن رواں

جگت موہن لال نام اور رواں ؔ تخلص ہے آپ راں اُناوی کے نام سے مشہور ہے ۔ 14 جنوری 1889 ء میں اترپردیش میں پیدا ہوئے ۔والد کا نام چودھری منشی گنگا پرشاد تھا ۔ ابھی آپ کی عمر صرف 9 سال کی تھی والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ آپکی پروریش اور تعلیم و تربیت میں آپ کے بڑے بھائی کنہیالال کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ۔آپ نے بی۔ اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ایم ۔ اے اور ایل ایل بی کی بھی ڈگریاں بھی حاصل کیں ۔ اُناوہ میں آپ نے مستقل سکونت اختیا رتھی ۔  آپ نے وکالت کا پیشہ اختیا ر کیا تھا جس میں آپ کو کافی مقبولت ملی تھی ۔ آپ کی طبعیت بہت موزون تھی ۔آپ عزیز لکھنوی کے شاگرد تھے

          آپ نے غزلیں نظمیں ،قطعات اور رباعیات لکھیں ۔آپ کا پہلا مجموعہ " روح رواںؔ" کے نا سے شائع ہوچکا ہے ان کے کلام میں اخلاقیات ،فلسفہ ، سائنس ، اور انسانی جذبات ،و احساسات جیسے موضوعات نمایاں ہے ۔ آپ کے بیان میں سلاست اور روانی ہے دنیا کی بے ثباتی آپ کے کلام رباعی کا خاص موضوع ہے۔۔آخر پنتالیس سال کی عمر میں 1935ء کو اس جہاں فانی سے کوچ کر گئے۔

                     رباعیات رواںؔ

     دنیا سو طرح سے بہلاتی  ہے                         

سامان خوشی سے روح گھبر اتی ہے

اب فکر فنا نے کھول دی ہیں آنکھیں               

کلف ہر بات میں نظر آتی ہیں

تشریح:- اس رباعی میں رواں ؔ فرماتے ہیں کہ اس دنیا میں موجودطرح طرح کی چیزیں انسان کو بہلاتی ہے لیکن  جب انسان کواس دنیا سے جانے کا وقت قریب آجاتا ہے تو یہ سامانِ خوشی روح کو غمگین کرتا ہے۔یعنی موت کے ڈر سے پھر یہ چیزیں انسان کے دل کو لبھا نہیں پاتی ہے۔

2۔     حرص و ہوس حیات فانی نہ گئی             

اس دل سے ہوائے کامرانی نہ گئی

ہے سنگ مزار پر تیرا نم رواںؔ             

مر کر بھی امید زندگانی نہ گئی

تشریح:- اس رباعی میں رواں ؔ خود سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ اے رواںؔ اس دنیا سے جانے کے بعد بھی تجھے دنیا کی ہوس نہیں گئی اور اسی لئے اپنی قبرکی  پتھرپر اپنا نام لکھوادیا تاکہ تیرا نام مر کے بھی زندہ رہے یعنی تم مر کر بھی زندہ رہنا چاہتے ہو  ۔

3۔     کیا تم سے بتائیں عمر فانی کیا تھی            

بچپن کیا چیز تھا جوانی کیا تھی

یہ گل کی مہک تھی وہ ہواکا جھوکا

اک موج فضا تھی زندگانی کیا تھی

تشریح:- اس رباعی میں رواں ؔ فرماتے ہیں کہ میں تمہیں اس فنا ہونے والی زندگی کا کیا بتاؤں ،بچپن کیا تھا اور جوانی کیا تھی، بچپن ایک پھول کی طرح تھا جو مہک رہا تھااور جوانی ایک ہواکے جھونکےکے سوا اور کچھ نہ تھی۔ یہ زندگی ایک مختصر سا وقفہ تھا۔جس کو کب مکمل کیا پتہ ہی نہ چلا۔

سوالات:۔

1َ۔      شاعر کو ہر بات میں کلفت کیوں نظر آتی ہے؟

جواب: جب انسان کو موت کا وقت قریب آ جاتا ہے تو انسان کے دل کوروز مرہ کی  چیزیں خوش نہیں کرپاتی بلکہ ان سے انسان کو رنج ہی پہنچتا ہے ۔شاعر کو بھی موت کا دن قریب نظر آرہا ہے اسلئے اس سے ہر بات مین کلفت  نظر آتی ہیں 

2۔     تیسری رباعی میں تشبیہں تلاش کریں۔

جواب: تیسری رباعی میں ، گل کی مہک کو بچپن سے ،جوانی کو ہو کے جھونکے سے ، زندگی کو اک موج فضا سے، تشبیہ دی گیں ہیں ۔

       دوسری رباعی کا ماحاصل لکھے۔

جواب:۔دوسری رباعی میں شاعر کہتے ہیں کہ انسان اس دنیا کی ہوس میں مر کے بھی زندہ رہنا چاہتا ہے کیو نکہ اس کی خواہشات کا کھبی اختتام ہی نہیں ہوتا ۔ اسلئے شاعر اس رباعی میں خود سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ اے رواں ؔ تو اس دنیا کی ہوس میں گرفتار ہو چکا ہے ۔اسلئے اپنی قبر کی پتھر پراپنا پر نام لکھوا دیا ۔ تاکہ مر کر بھی تیرا نام زندہ رہے ،گویا کہ تو مر کر بھی اس دنیا میں  زندہ رہنا چاہتا ہے۔

سوال6: یہ کس قسم کے مرکبات ہیں :

          سامان خوشی،   حرص و ہوس ۔ حیات فانی

جواب :۔مندرجہ ذیل مرکبات فارسی مرکبات ہیں ۔ان مرکبات میں زیر اضافت کا کام دیتی ہے ایسے مرکبات میں مضاٖف پہلے اور مضاف الیہ بعد میں آتا ہے.

نوٹ: آپ اپنی درسی کتاب کے صفحہ نمبر 195 پراس کے متعلق مزید استفادہ حاصل کرسکتے ہیں)

 


No comments:

Post a Comment