میرتقی
میر ۔
جواب:۔ میر تقی نام اور
تخلص میر تھا1723ءمیں پیدا ہوئے۔ والد کا نام محمد علی تھا۔ میردس سال کے ہوئے ان
کا والد کا انتقال ہو گیا۔والد کے انتقال کے بعد سوتیلے بھائیوں نے میر کو ستانا
شروع کیا ۔ والد کے جائیداد میں کچھ نہ دیا۔ مجبورا میر کر آگرہ چھوڑنا پڑا اور
تلاش معاش کے لئے دہلی پہنچے ۔ اور اپنے سوتیلے ماموں خان آرزو کے یہاں قیام کیا
لیکن بدقسمتی سے میر یہاں بھی سکون سے رہ سکے کیونکہ سوتیلے بھائیوں کے اکسانے پر
خان آرزو نے بھی گھر سے نکال دیا۔ اسکے بعد میر پر جنون کی حالت طاری ہوئی کچھ مدت
کے بعد ہوش ٹھکانے آئے تو تلاش معاش کے سلسلے میں بھٹکتے پھرے کبھی متھرا گئے کبھی
اجمیر ۔ جب دہلی برباد ہوگئی تو میرلکھنو پہنچے۔ لکھنو میں انکی بڑی عزت افزائی
ہوئی کیونکہ ان کے لکھنو پہنچنے سے پہلے انکی شاعری کا چرچہ وہاں پہنچ چکا تھا۔
نواب آصف الدولہ نے میر کو ہاتھوں ہاتھ لیا اس کے بعد میر نے لکھنو میں ہی باقی
زندگی بسر کی۔ میر کا انتقال ۸۷سال کی عمر میں ۱۸۱۰ء میں لکھنو میں ہی ہوا اور وہی
فن کئے گئے۔
ادبی
خدمات اور خصوصیت کلام :
آپ نے کثرت کے
ساتھ تصنیفات کی ہیں آپ کا زیادہ تر سر مایہ غزل میں ہے۔ انہوں نے ڈیڑھ ہزار سے
زائد غزلیں کہی ہیں جو آپ کے چھ اردو دواویں میں بکھری پڑی ہیں ۔ ایک دیوان فارسی
میں ہے۔ ایک رسالہ فیض میر اور تذکرہ نکات الشعراء شائع ہو چکے ہیں ۔ قصیدے بہت کم
لکھے ہیں۔ مثنویاں بھی کہی ہیں ۔ اور اس صنف میں کامیاب رہے۔ منظرکشی اعلی پایہ کی
ہیں لیکن واردات عشق کا بیان غضب کا ہے۔ خارجی مضامین کی طرف میر کے کلام کی سب سے
اہم خوبی اس کی سادگی اور روانی ہے۔ میر کو اردو غزل کا بادشاہ کہا گیا ہے ان کی
غزلیات میں میر کے تمام پہلوں کی جھلکیاں نظر آتی ہیں۔ تصوف کے ساتھ زمانہ کے دکھ
محبت کی ناکامی اور دروغم نے میر کے ذہن پر اثر ڈالا کہ میر کے کلام میں درد اور
گداز کا جادو جاگ گیا۔ میر ساری زندگی حسرتوں کی ایک لمبی داستان ہےمیر کو مصیبت
کے سوا کچھ نہ ملالیکن اس کی وجہ سے اردو شاعری کو ایسا انمول خزانہ ہاتھ آیا جو
رہتی دنیا تک یاد رہے گا۔
No comments:
Post a Comment