تازہ ترین

Sunday, May 23, 2021

تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ ||سوالات کے جوابات|| مولانا الطاف حسین حالی| Urdu notes 9th

مولانا الطاف حسین حالی

 مولانا الطاف حسین حالی

الطاف حسین نام اور حالیؔ تخلص تھا۱۸۳٧ء مطابق ۲۵۲اھ پانی پت کے محلہ انصار میں پیدا ہوئے ۔ حالی کی ولادت کے بعد ان کی والدہ کا دماغ مختل ہو گیا، بدقسمتی سے حالی بچپن ہی میں ماں کی آغوش محبت سے محروم ہو گئے ۔ جب نو سال کے ہوئے تو والد کا سایہ سرے اٹھ گیا، انہیں داغ بیتی سہنا پڑا۔ اسکے بعد ان کی پرویش اورتعلیم وتربیت ان کے بڑے بھائی خواجہ امداد حسین اور ان کی بہنوں نے بڑھے پیار اور محبت سے کی کبھی انہیں ماں کی ممتا اور باپ کی شفقت سے محرومی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ رواج کے مطابق پہلے قرآن شريف بعد میں عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ ۱۸۵۷ء میں کے بعد نواب مصطق شفت سے وابستہ ہو گئے ان ہی کے زریعے مرزا غالب سے ملاقات ہونے کا شرف حاصل ہوا اور شاعری میں ان کے شاگرد ہو گئے ۔ شفتہ کی وفات کے بعد لاہور چلے گئے اور وہاں گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازم ہو گئے ۔ پھر دہلی آئے اور سرسید سے ملاقات ہوئی انہی کی سفارش پرنظام گورنمٹ سے ۵ ٧روپیہ ماہوار وظیفہ مقرر ہو گیا۹۰۶اء میں حکومت ہند سے شمس العماء کا خطاب حاصل ہوا ۔ ا٣مبر ١٩١٤ء کوعلم وادب کایہ آفتاب ہمیشہ کے لئے غروب ہو گیا۔

طرز تحریروادبی خدمات : مولانا ایک بڑے اور مایہ ناز ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ شاعربھی ہیں انہیں عربی، فارسی، ہندی، اور اردو زبان پر خاصی دسترس تھی۔ انہوں نے نثر کے ساتھ ساتھ شاعری میں بھی لوہا منوایا۔ ان کی زبان دہلی کی ٹکسالی زبان ہے ان کی تحریر سادہ شیر ین اور پر تاثیر ہے۔ ان کی عبارت میں سلاست اور سادگی کے علاوہ آزاد کی شوخی اور رنگینی کے ساتھ ساتھ نذیر احمد کی سی نازکی اور لطیف ظرافت نہیں ۔ عبارت آرائی اور تکلف سے پرہیز کیا ہے، الفاظ کے استعمال میں تناسب اور موزونیت ہے، ان کے خیالات میں روانی اورتسلسل ہے۔ آپ سورنح نگاری کے موجد ہیں۔ آپ کی کتاب ”مقدمہ شعر و شاعری‘‘ سے ہمارے ادب میں تنقید کاباقاعدہ آغاز ہوا ہے جو اپنی نوعیت کی منفرد اور اہم کتاب ہے۔ حالی کی کئی تصانیف ہیں جن میں ”مسدس حالی، دیوان حالی، یادگار غالب، حیات سعدی، حیات جاوید ریاق مسموم ، مقد مہ شعروشاعری ۔ بہت ہی مشہور ومقبول ہیں۔

مسدس مد و جز اسلام

تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ
مولانا الطاف حسیین حالیؔ



تشریح
یہ بند حالی کی مشہور نظم مسدس مدو جز اسلام سے لئے گئے ہیں 
1.جنہوں نے کی تعلیم کی قدر و قیمت
 نہ جانی مسلط ہوئی ان پر ظلمت
ملوک اور سلاطین نے کھوئی حکومت
 گھرانوں پہ چھائی امیروں کی نکبت
رہے خاندانی نہ عزت کے قابل
 ہو ئے سارے دعوے شرافت کے باطل
تشریح : مولانا الطاف حسین حالی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کی جن لوگوں نے تعلیم کی قدر و قیمت نہیں سمجھی اور تعلیم حاصل نہیں کی وہ ظلمت کے شکار ہوگئے۔ علم سے دوری کی وجہ سے بادشاہوں کی بادشاہتیں ختم ہوگیں امیر اور مالدار لوگ افلاس کی شکار ہوگئے خاندانی لوگ اپنی عزت اپنا وقار کھو بیٹھے ۔
2۔نہ چلتے ہیں واں کام کاریگروں کے
 نہ برکت ہے پیشہ میں پیشہ وروں کے
بگڑنے لگے کھیل سوداگروں کے
 ہوئے بند دروازے اکثر گھروں کے
کماتے تھے دولت جو دن رات بیٹھے
 وہ اب دھرے  ہاتھ پر ہاتھ بیٹھے
تشریح : مولانا الطاف حسین حالی نظم کی اس بند میں فرماتے ہیں کی تعلیم سے دوری کی وجہ سے کاریگروں اور پیشہ ور لوگوں کی کمائی میں کمی آئی جو تجارت پیشہ لوگ تھے وہ بدحال ہوگئے کچھ لوگ تعلیم سے دوری کی وجہ سے اس قدر بد حال ہوگئے کہ ان کے گھروں کو تالے پڑ گیا ۔اور ہنر مند لوگ بے کار ہوئے کیونکہ وہ زمانے کے ساتھ نہ چل سکے ۔
3۔ ہنر اور فن واں ہے سب گھٹتے جاتے
 ہنر مند ہیں روز و شب گزرتے جاتے
ادیبوں کے  فضل و ادب گھٹتے جاتے
 طبیب اور ان کے مطب گھٹتے جاتے
ہوئےپست سب فلسفی اور مناظر
 نہ ناظم ہیں سر سبز ان کے نہ ناشر
تشریح نظم کے اس بند میں مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں کہ لوگ جب اپنے آپ کو تعلیم سے آراستہ نہیں کریں گے تو فن اور ہنر  روز بروز گھٹتا جائے گا ادیب اور دانشور بھی جب تعلیم سے دوری اختیار کریں گے تو وہ بھی مفید ادب تخلیق نہ کر سکیں گے ۔تعلیم سے بے توجہی برتنے والے چاہیے حکیم ہو یا فلاسفر ان کے کام بے فائدہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور ان سے وابستہ دوسرے افراد چاہے ناظم ہو یا ان کی تحریروں کو چھاپنے والے سب بے کار اور پست ہوجاتے ہیں

3۔ اگر ایک پہننے کو ٹوپی بنائے
 تو کپڑا وہ ایک اور دنیا سے لائے
جو سینے کو وہ ایک سوئی منگائیں
  تو مشرق سے مغرب میں لینے کو جائے
ہر اک شے میں غیروں کے محتاج ہے وہ
 مکینکس کی رو میں تاراج ہے وہ
تشریح مولانا الطاف حسین حالی اس بند میں فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے کاریگروں  کو ایک ٹوپی بنانے ہو تو ان کے پاس کپڑا میسر نہیں ہے وہ انہیں دوسرے ممالک سے لانا پڑتا ہے اور ٹوپی کی سلائی کے لیے جس سوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی ان کے پاس نہیں ہے وہ بھی انہیں دوسرے ممالک سے منگوانی پڑتی ہے گویا ہم ہر چیز کے لئے دوسروں کے محتاج ہے کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو جدید تعلیم سے آراستہ نہیں کیا ہے
تو مر جائے بھوکے وہاں اہل حرفت
ہو تجار پربند راہ معیشت
 دکانوں میں ڈھونڈے نہ پائیں بضاعت
پرائے سہارے ہیں بیوپار واں سب
طفیلی ہیں سیٹھ اور تجار واں سب
مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں کہ اگر مغربی ممالک سے تجارت کا مال نہ آئے جو کہ وہاں کے کارخانوں کی پیداوار ہے تو تجارت پیشہ لوگوں کے مر جائیں گے اور ان کے معاش کمانے کے ذرائع بند ہوجائیں گے ان کے دوکانوں پر مال کا فقدان ہو جائے گا کے یہ جو ہماری تجارت پیشہ لوگ ہیں یہ دوسروں کے سہارے جیتے ہیں یہ جتنے بھی تاجر ہے تعلیم کے بغیر ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے یہ غیروں کے بھروسے اپنا کام چلا رہے ہیں
 وہ کاش اب بھی غفلت سے باز اپنی آئیں
مبادا راہ عافیت پھر نہ پائیں 
 کہ ہیں  بےپناہ آنے والی بلائیں
ہوا بڑھتی جاتی سر رہگذر ہے
 چراغوں کو فانوس بن اب خطر ہے
تشریح مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں جن سے زائد کا ذکر کیا گیا ہے یہ سب تعلیم سے دوری کی سزا یہی حال مزید فرماتے ہیں خدا کرے میری قوم دیر ہونے سے پہلے کی غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائے کیونکہ مستقبل بہت کٹھن ہے آنے والے زمانے میں ایک ایسی ہوا چلنے والی ہے جو ان چراغوں کو بجھا دے گی جو فانوس میں محفوظ نہ ہوں گے یعنی جو لوگ جدید تعلیم سے آراستہ ہوں گے وہی اس آندھیوں تیز ہوا کا مقابلہ کر سکیں گے اور اپنے آپ کو تباہی سے بچا سکیں گے
6۔ لیے فرد بخشی دوران کھڑا ہے
 ہر اک فوج کا جائزہ لے رہا ہے
جنہیں ماہر اور کرتبی  دیکھتا ہے 
انہیں بخشتا تیغ و طبل و نوا ہے
  یہ ہیں بے ہنریک قلم چھٹتے جاتے 
سالوں سے ان کے نام ہے کٹے جاتے
تشریح نظم کے اس زبان میں مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں کے زمانے کا فوجی عہدیدار لوگوں کا جائزہ لے رہا ہے کون زمانے کے ساتھ چلنے کے لائق ہیں اور جن لوگوں کو زمانے کے ساتھ چلنے کے لائق سمجھتا ہے انہیں زندگی گزارنے کا سازوسامان فراہم کرتا ہے اور جنہیں نااہل سمجھتا ہے انہیں خارج کردیا جاتا ہے انہیں ترکی بہبود کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے
سوالات:

سوال نمبر1۔ تعلیم کی قدرو قیمت کیا ہے؟

جواب:۔ تعلیم کی قدرو قیمت بہت اعلیٰ ہے ۔تعلیم سے انسان

 اپنے فرائض منصبی سے آگاہ ہوسکتا ہے اور وہ تمام کام

 بحسن وخوبی انجام دے سکتا ہے جس کے لئے اسے دنیامیں

 بھیجا گیا ہے تعلیم کسی بھی فرد، جماعت قوم اور ملک کی 

ترقی کے لئے بہت ضروری ہےدنیا میں وہ قومیں ترقی 

یافتہ اور خوشحال ہے جنہوں نے خود کو تعلیم سے آرستہ کیا ہے ۔

سوال2: حکومت اور قوموں پر زوال کیسے آتا ہے؟

جب کسی قوم یا حکومت میں رہ رہے لوگ تعلیم سے بے توجہی

 برتتے ہیں تو ان کی حکومتیں اور قومیں لازمی طور پر زوال کا

 شکار ہو جاتی ہیں، کیونکہ تعلیم وہ واحد ذریعہ ہے جس کی

 وساطت سے کوئی بھی ملک یا قوم خوشحالی اور ترقی کے راستے پر

 گامزن ہوسکتی ہے۔

 سوال3:شرافت اور عزت کا معیار کیا ہے؟

جواب: شرافت اور عزت کا معیار  تعلیم ہے ۔تعلیم حصول سے ہی انسان کی شرافت اورعزت میں بہتری آتی ہے ۔

سوال4۔ ترک تعلیم کے کیا کیا نقصانات ہیں؟

جواب: ترک تعلیم کے ان گنت نقصانات ہیں ملکی یا قومی سطح

 پر  تعلیم ترک کرنے کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے ک قوم یا ملک

 ترقی کی کوئی منزل طے نہیں کر سکتا۔ بے روز گاری پڑ جاتی

 ہے۔ جو اپنے ساتھ مفلسی اور ناداری لاتی ہے۔ لوگ اخلاقیات

 سے انجان رہتے ہیں جس وجہ سے اخلاقی اوربہت  ساری

 برائیاں اپنے عروج کو پہنچ جاتی ہیں ملک میں فلسفی ، 

 بااخلاق، سماج دوست ،ڈاکٹر ،انجینئر پیدا نہیں ہو سکتے  ۔ 

جس کالازمی نتیجہ نکلتا ہے  کہ ایسے ملک کو ہر چھوٹی بڑی 

چیز کے لئے دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح 

تعلیم کی وجہ سے ملک ہر طرح سے زوال کا شکار ہوجاتا ہے

سوال5۔ کسی ملک اور وہاں کے عوام کی ترقی کن چیزوں سے ہوسکتی ہے؟

 کسی ملک اور وہاں کے عوام کی  ترقی حسب ذیل چیزوں سے ہو سکتی ہے :

ملک کے لو گ  تعلیم یافتہ ہوں ۔ کاری گر اور صنعت و حِرفت سے وابستہ لوگ اپنے امور میں ماہر ہوں ۔ ملک میں امن اور اخوت ہو۔ علم و ہنر میں ترقی ہو۔ ملک کے  لوگ سماج دوست اور با مروت ہوں ۔ بد عنوانی اور رشوت خوری بلکل نہ ہوں ۔ حکومت    عوام کی ہو  اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرے ۔


1 comment: