میر انیس کی حالات زندگی |
میر ببر علی انیسؔ
میر
انیسؔ کا اصل نام میر ببر علی اور انیس ؔ تخلص تھا پہلے حزیںؔ تخلص لکھتے تھے بعد میں ناسخ ؔکے کہنے پر انیس اختیار کیا ۔ آپ کے والد کا نام میر خلیقؔ
تھا ۔معروف مثنوی "سحرالبیان" کے خالق میر حسنؔ ان کے دادا تھے ۔ آپ کے
جد امجد میر امامی ہرات سے شاہ جہاں کے عہد میں ہندوستان وارد ہوئے ۔میر انیسؔ
1803 ء کو گلاب باڑی فیض آباد میں پیدا ہوئے ۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت ماں کی
آغوش میں ہوئی۔عربی فارسی مولوی حیدر علی اور مفتی حیدر عباس سے پڑھی ۔ فنون سپہ
گری اور فن شہسواری سے بھی وقفیت رکھتے تھے ۔ شاعری میں اپنے والد سے اصلاح لیتے
تھے ۔ میر انیس ابتدا میں غزل کہتے تھے مگر والد
کی نصیحت پر صرف سلام اور مرثیہ کہنے لگے اور پھر ایسے منہمک ہوئے کہ کبھی غزل
کہنے پر توجہ ہی نہیں دی۔ محمد حسین آزاد نے کیا خوبصورت تبصرہ فرمایا ہے کہ
"والد کی فرمانبرداری میں غزل کو ایسا
چھوڑا کہ بس غزل کو سلام کر دیا"۔
انہوں
نے تقریباً 1200 مراثی،125 سلام او ر 600 رباعیات لکھی۔ ان کی سب سے بڑی مرثیہ 157
بند اور 1182 اشعار پر مشتمل ہے۔ میر انیس کو دشت کربلا کا اعظیم سیاح قرار دیا
گیا ہے۔ میر انیس نے اردو میں مرثیہ گوئی اور مرثیہ خوانی کو ایک اعظیم فن کا درجہ
دیا ۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے ۔ ایک بات کو کئی ڈھنگ سے ادا کرنے میں ماہر
تھے ، وہ ایک ااعلیٰ پایہ کے مرثیہ نگار تسلیم کئے گئے ہیں ۔ اُن کی مراثی میں
مختلف قسم کے اشخاص کی سیرت و کردار کی سچی اور اچھی تصویریں نظر آتی ہیں ۔
میر ببر علی انیس ان شاعروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے
اردو کی رثائی شاعری کو اپنی خلاقی سے معراج کمال تک پہنچا دیا۔صنف مرثیہ میں انیس
کا وہی مقام ہے جو مثنوی کی صنف میں ان کے دادا میر حسن کا ہے۔انیس نے اس عام خیال
کو باطل ثابت کر دیا اردو میں اعلی درجہ کی شاعری صرف غزل میں کی جا سکتی ہے۔انہوں
نے رثائی شاعری کو جس مرتبہ تک پہنچایا وہ اپنی مثال آپ ہے۔انیسؔ آج بھی اردو میں
سب سے زیادہ پڑھے جانے والے شاعروں میں سے ایک ہیں۔
میر انیس ایک خود داراور
سادگی پسند انسان تھے۔ انہوں سے زندگی بھر
کبھی کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلایا ۔آخری عمر میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے ۔19
شوال 1291 ھ بمطابق 10 دسمبر 1874 ء کو لکھنو میں انتقال کر گئے ۔ اپنے باغ واقع
چوبداری محلہ میں دفن ہو گئے ۔
No comments:
Post a Comment