میر امن دہلوی
میرامن
کا نام میرامان تھا۔ اور امن(لطف) تخلص تھا۔ دہلی کے رہنے والے تھے۔ اور وہاں کی
آباد جاگیر موجود تھی۔ احمدشاه ابدالی کے محلے میں اس پر سورج مل جانے کا قبضہ ہو
گیا اور مجبور ہو کر پٹنہ چلا گیا۔ کچھ دنوں وہاں قیام کرنے کے بعد کلکتے آگئے اور
نواب زاده میرمحمد کاظم خان کی تعلیم وتربت پر مامور ہوئے۔ انھیں دنوں اپنے دوست
میر بہادر علی حسینی کے زریعہ فورٹ ولیم کالج میں ملازم ہوئے۔ یہاں انہیں ترجمہ کا
کام سونپا گیا۔
عطا
حسین حسینی نے فارسی قصہ چہار در ریش کا فارسی سے اردو میں "نو طرز مرصع “ کے
نام سے ترجمہ کیا تھا لیکن اس کی زبان بہت مشکل تھی ۔ فورٹ ولیم کالج کے قیام کا
مقصد ہ یہ تھا کہ انگریز افسروں کو عام بول چال کی زبان سکھائی جائے ۔تحسین کا
ترجمہ ان کے کسی کام کا نہ تھا۔ میرا من حب کا لج سے وابستہ ہو گئے تو ڈاکٹر جان
گلگرائٹ نے یہ کام ان کے سپرد کیا کہ اس قصے کو آسان اور عام فہم زبان میں لکھیں۔
میرامن
نے اس قصے کو نہایت آسان صاف اور بول چال کی زبان میں"
باغ و بہار" کے
نام سے لکھا ۔ انھوں نے تحسین کے" نو
طرز مرتصع ،، کے علاوہ فارسی "قصہ
چہار درورش ، مصنف میرا حمد خلف شاہ محمد کو بھی سامنے رکھا۔ انھوں نے بول
چال کی زبان استعمال کی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ کتاب مقبول ہوئی اور آج تک اسے
بہتشوق سے پڑھا جاتا ہے۔ اس کی سادگی اور سلاست نے اردوزبان میں ایک نیا راستہ
کھول دیا اور اردو والوں کو اس بات کا احساس ہوگیا کہ سادگی کا اپنا حسن ہوتاہے
اور زبان کو آگے بڑھنا ہے تو اسے پیچیدگی، نفالی اور عبارت آرائی سے پرہیز کرنا
چاہیے۔ رنگین اور بناوٹی زبان اظہار خیال کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہے۔
" باغ و بہار" کی اسی خوبی کو دیکھتے ہوئے سرسید نے کہا
تھا کہ میرامن کو اردو میں وہی مرتبہ حاصل ہے جو میر تقی میر کو شاعری میں حاصل
ہے۔ میرامن نے جہاں تک ہو سکا ہے عربی فارسی الفاظ سے گریز کیا ہے۔ بابائے
اردوڈاکٹر عبدالحق نے لکھا ہے کہ جہاں وہ آسانی سے عربی اور فارسی کا لفظ لکھ سکتے
تھے۔ وہاں بھی انہوں نے سیدھے الفاظ کو ترجیح دی ہے ۔ مثلا خوشی کی جگہ آنند، رونت
کی جگہ روبٹ پیام کی جگہ سند یسا جیسے لفظوں کا انتخاب کیا ہے تاکہ ہر آدمی اس
کتاب کو پڑھ کر لطف حاصل کر سکے۔ اس طرح کا ایک نمونے ملاحظہ ہو
"ائے
بیرن تومیری آنکھوں کی پتلی اور ماں باپ کی موئی مٹی کی نشانی ہے۔ تیرے آنے سے
میراکلیجہ ٹھنڈا ہوا جب تجھے دیکھتی ہوں باع باغ ہوجاتی ہوں"
باغ
و بہار سے اس زمانے کے رہن سہن، طورطریق اور رسم ورواج کا پتہ چلتا ہے مترجم نے
علمی زبان استعمال کر کے بول چال کی زبان لکھی ہے اور ان لفظوں کا وہ املاء
استعمال کیا ہے جس سے بول چال کا تلفظ معلوم ہوجاتاہے جیسے جمعرات کی جبکہ
جمعیرات، شب برات کی جگہ شبرات۔
میر
امن نے گلستان کا ترجمہ کی ترجمہ "گنج خوبی" کے نام سے کیا لیکن اسے باغ
و بہار کی سی مقبولیت حاصل نہ ہوسکی۔
No comments:
Post a Comment