فورٹ ولیم کالج
ہندوستان میں مغلیہ سلطنت
کا شیراز منتشر ہوا تو انگریزوں کے قدم جمنے لگے اور ملک کا بڑا حصہ ایسٹ
انڈیاکمپنی کے زیرنگیں آ گیا۔ ملک کا انتظام کرنے کے لئے آئے دن انگلستان سے
انگریزی آفسر آتے رہتے تھے۔ ان کی سب سے بری دشواری یہ ہوتی تھی کہ وہ اس ملک کی کسی
زبان سے واقف نہ ہوتے تھے اور یہاں کے باشندے بلکل انگریزی نہ جانتے تھے۔ حاکم
ومحکوم ایک دوسرے کی زبان نہ سمجھیں تو ملک کا کاروبار چلے کیے۔آخرکار کلکتہ میں
ایک کالج فورٹ ولیم کے نام سے ن1800ء میں قائم کیا گیا جس کا مقصد تھا کہ نووار
انگریز افسروں کو یہاں کی زبان سکھائی جائے۔ اس وقت سرکاری زبان فارسی تھی لیکن
عام بول چال کی زبان اردوتھی اور سارے ملک پر چھائی جارہی تھی۔ فارسی اس زبان
کے لئے جگہ
خالی کر رہی
تھی ۔ اسلئے کالج
میں اردو کا
شعبہ بھی قائم
کیا گیا جس
کی سربراہی جان
گلکرسٹ کو سونپی
گئی ۔ کالج کے
ساتھ ساتھ ایک
بڑا کتب خانہ
اور پرس بھی
قائم کیا گیا
تھا اور اردو
کے علاوہ عربی،
فارسی سنسکرت اور
ہندی کی طرف
بھی توجہ دی
گئی ۔ جب پڑھانے
کی نوبت آئی
تو انداز ا
ہوا کہ ایسی
کتابیں ہی موجود
نہیں جن کو
نصاب میں شامل
کیا جا سکے
۔ اسلئے کتابیں
لکھوانے کی ضرورت
پیش آئی اور
سارے ملک سے
اہل قلم کو
اکھٹا کیا گیا
جو آسان اور
سلیس ترجمے کر سکیں
اور کتابیں لکھ
سکیں۔
جو اہل قلم اس کالج میں تصنیف
و تر جمے کے کام پر مامور تھے ان میں مندرجہ ذیل خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ جان گلکرسٹ،
میر امن ، میر شیر علی افسوں، حیدر بخش حیدری ، بہادر علی حسینی ، کاظم علی جوان نہال
چندر لا ہوری مظہر علی خان ولا، مولوی اکرم، بینی نرائن ، مرزاجان علی لطف مولوی امانت
،مرزا جان طیش، سید حمید الدین بہاری۔
No comments:
Post a Comment