علی گڑھ تحریک
سرسید احمد خان جو اپنےعہد کے ایک مفکر اور مصلح نتھے انہوں نے ۱۸۵۷ء کے واقعات کا بڑی گہرائی سے مشاہدہ کرنے نے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ۸۵۷اء کے جد و جہد آزادی میں ہندوستان کے سبھی طبقوں نے انگریزوں سے مقابلہ کیا تھا تا ہم مسلمانوں کا طبقہ سب سے زیادہ معتوب بنا۔ انگریزوں کو اس بات کا احساس تھا کہ انہوں نے مسلمانوں سے اقتدار چھین لیا اور اسی طبقے نے انہیں اقتدار سے ہٹانے کی جی توڑ کوشش کی یہی وجہ ہے کہ انگریزوں نے انتقامی کاروائی کے طور پر مسلمانوں کوخصوصیت کے ساتھ اپنا نشانہ بنایا ، سرسید نے مسلمانوں کےکھوئے ہوئے وقار کو واپس لانے کے لئے زندگی بھر جدوجہد کی ۔ یہی جدوجہد اور سعی و کاوش علی گڈھ تار یخ کہلاتی ہیں چو کہ سرسید اس کے محرک اور نمائندے تھے اسلئے اس تحر یک کوسرسید تحریک بھی کہا گیا۔
سرسید نے محسوس کیا تھاکہ مسلمانوں کی یہ دکھی اور افسوسناک حالت جدید تعلیم کی عدم دستیابی کی وجہ سے ہے۔ ان کا ماننا تھا کہ مسلمانوں کے ہر مسئلے کا علاج جدید تعلیم ہے۔ لہذا ، انہوں نے عظمت سے محروم اور مایوس مسلمانوں کی ترقی کے لئے تعلیمی پروگرام شروع کیا۔ انہوں نے اپنے تعلیمی منصوبے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ چنانچہ 1859 میں سرسید احمد خان نے مراد آباد میں مسلمانوں کے لئے ایک اسکول قائم کیا جہاں انگریزی ، فارسی ، اسلامیات ، عربی ، اردو لازمی مضامین تھے۔ 1862 میں ، سرسید مراد آباد سے غازی پور منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے مسلمانوں کے لئے ایک اور اسکول قائم کیا ، جسے مدرس غازی پور کے نام سے جانا جاتا تھا۔ یہاں انگریزی ، عربی ، فارسی ، اردو اور اسلامیات لازمی مضامین کے طور پر پڑھائے جاتےتھے۔1864 میں ، سر سید احمد خان نے غازی پور میں ایک سائنٹفک سوسائٹی کی بنیاد رکھی۔ اس سوسائٹی کا مقصد انگریزی کتابوں کا اردو زبان میں ترجمہ کرنا تھا۔ لیکن ، بعد میں ، 1866 میں ، علی گڑھ سے منتقلی کے بعد ، سائنسی سوسائٹی کا مرکزی دفتر بھی علی گڑھ میں منتقل کردیا گیا۔ 1866 میں ، سائنسی سوسائٹی نے علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ کے نام سے ایک جریدہ جاری کیا۔ یہ جریدہ اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوا ۔ اس جریدے کا مقصد مسلمانوں اور برطانوی حکومت کے مابین پائی جانے والی غلط فہمی کو ختم کرنا تھا اور انہیں ایک دوسرے کے قریب لانا تھا۔
سرسید کی نظر مسلمانوں میں پائے جانے والی کمزوریوں اور برائیوں پرتھی وہ اپنی قوم کو جہالت کے پستی اور تنگ نظری کے اندھرے سے نکال کر تعلیم کے اجالے میں لانا چاہتے تھے ان میں بلند خیالی اور وسعت نظر پیدا کرنا چاہتےتھے سر سید نےمسلمان نوجوانوں کو مغربی زبان و ادب اور علوم وفنون سے فیض یاب کرنے کے لئے اپنے بیٹے سید محمود کے ہمراہ ، 1869 میں انگلینڈ کا سفر کیا اور آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹی جیسے انگریزی تعلیمی اداروں کی تعلیمی معیار کو قریب سے دیکھا ۔ تاکہ ہندوستان واپس جانے کے بعد مسلمانوں کے لئے ایک ایساتعلیمی منصوبہ پیش جائےجس کے سہارے مسلمانوں کی نئی نسل متمدن دنیا میں اپنا مؤثر حصہ ادا کر سکے ۔ ہندوستان واپسی کے بعد ، انہوں نے ایک کمیٹی تشکیل دی جو “Committee Striving for Educational Progress of Muslims" کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کمیٹی کے تحت " Fund Committee for the establishment of a Muslim College" کے نام سے ایک اور کمیٹی قائم کی گئی اور سرسید کو دونوں کمیٹیوں کا سکریٹری منتخب کیا گیا۔ اس مقصد کے لئے ، سرسید نے ملک بھر کا دورہ کیا اور کالج کے قیام کے لئے فنڈ جمع کیے۔ 4مئی ۱۸۷۵ء کو انہوں نے اپنے دیرینہ خواب کومدرسۃ العلوم مسلمانان (مڈن اینگور اورنٹل کالج) کی صورت میں عملی جامہ پہنایا 1877 میں اسکول کو کالج کی سطح تک اپ گریڈ کیا گیا جس کا افتتاح لارڈ لیٹن نے کیا۔ اس کالج کی بنیادی خصوصیت یہ تھی کہ اس نے مغربی اور مشرقی دونوں تعلیم کی پیش کش کی ۔ بعد میں ، 1920 میں سرسید کی وفات کے بعد ، اس کالج کو یونیورسٹی کی سطح تک اپ گریڈ کیا گیا اور آج یہ ادارہ ہمارے سامنے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے۔
ڈاکٹر منظر اعظمی کے مطابق سرسید اس ادارے سے چار طرح کے طالب علم پیدا کرنا چاہتے تھے۔
٭ وہ جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم حاصل کر کے سرکاری اعلیٰ عہدے اور عزتیں پائیں۔
٭ وہ جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم پاکر مغربی علوم کو اردو میں منتقل کریں۔
٭ وہ جو انگریزی کے ذریعہ تعلیم پاکر ایسی لیاقت حاصل کر لیں جس کا معیار انگلستان کے کالجوں کے برابر ہو۔
٭ وہ جو عربی اور فارسی میں کمال حاصل کرکے مسلمانوں کے قدیم سرمایے کو موجودہ نسلوں تک پہنچائیں۔
( اردو ادب کے ارتقا میں ادبی تحریکوں اور رحجانوں کا حصہ ۔ص229)