محمد امین کامل کی حالت زند گی۔
سوال نمبر۳:۔ سیاق و سباق کے ساتھ درج ذیل طنزیہ جملوں کی وضاحت کریں:
٭ ہنھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں سمجھی۔پتہ نہیں کون ہے۔
جواب:۔ شاہ مال نے جب احاطے میں مرغار کھ دیا
اسکی دونوں مرغیاں مرغے کو مشکوک نظروں سے دیکھنے لگی گویا
نو
وارد کی صورت و سیرت کا اندازہ لگانے کی کوشش کر رہی ہو۔ ان میں سے ایک مرغی کوڑے
میں نیچے چلا رہی تھی اور اپنے اردگرد گردو غبار کھڑا کر کے اس میں نہا گئی تھی
اور جیسے کہہ رہی تھی کہ چھوڑو جو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں۔
٭عدل عمدہ نسل کا ہے۔ عام طور سے قصبوں میں نہیں ملتا اور اتنا مہنگا
خریدے گا بھی کون۔
جواب ۔ در اصل یہ شاہ مال کے الفاظ ہیں۔ جو اس
نے مریل جانی کے دل کو جلانے کے لئے استعمال کئے ہیں۔
٭تمہیں خود ایک مرغا خرید لینا چاہئے سمجھیں؟ خاص موقعوں پرتو اسے آنے
دیتی ہے ۔ پھر اناج کے چند دانے دینا نہیں برالگتاہے۔
جواب :۔ میریل جانی کے الفاظ ہیں ۔ جب شاہ مال
کے پاس اپنا مرغانہ تھاتب مریلنانی نے شاہ مال کو کہہ ڈالا کہ اگر روپے ہے تو
تمہیں بھی ایک مرغا خرید لینا چاہئے۔
٭مرغ بازی افسانے میں وہ جملے تلاش کریں جو شاہ مال اورمریل جانی نے
آپس میں طنز اور طعنوں کے طور پر استعمال کئے ہیں۔
جواب۔ الف۔ میرے شوہر اسے ابھی خرید کر لائے ہیں
پورے ساڑھے چار روپے میں۔
ب)
عمدہ نسل کا ہے۔ عام طور پر قصبوں میں نہیں ملتا۔ اور اتنا مہنگا خریدے گا بھی کون
ج)
خاص موقعوں پرتو اسے آنے دیتی ہے ۔ہےنا پھر اناج کے چند دانے دیناتمہیں بُر الگتا
ہیں
(د)صبح
صبح غصے میں کیوں ہو کیا کیا غریب نے؟
ہ)تم
جتنا کھلاسکتی ہو کھلاتی رہو۔
سوال:- درج ذیل کرداروں میں سے آپ کو کون سا کردار پسند آیا اور کیوں
(شاہ مال، مری جانی، سفید مرغا، سرخ مرغا)
جواب: مجھے اس افسانے میں شاہ مال کا کردار سب
سے زیادہ پسند آیا کیونکہ اس افسانے میں سب سے دلچسپ اور متحرک کردارشاه مال کا ہی
کردار ہے جو قاری کو مکمل کہانی پڑھنے کے لئے مجبور کرتا ہے اورکشمیر کی تہذیب کے
کئی پہلوؤں کو اجاگر کرتا ہے۔
سوال
8:۔ درج ذیل محاورات کے معنی لکھے۔
محاورات |
معنی |
خوشی سے پھولے نہ سمانا |
بہت کوش ہونا |
ٹھٹھک جانا |
حیران ہونا |
خون کھول اُٹھنا |
شرارت کرنا |
دل ہلکا ہونا |
پریشانی ختم ہونا |
دل ڈوب جانا |
کسی تکلیف سے پریشان
ہونا |
چہرے کا رنگ اڑنا |
مایوس ہونا |
سوال نمبر7 :- مرغ بازی افسانے کا خلاصہ اپنے الفاظ میں تحریر کیجئے ۔
جواب:
شاه مال کی ہمسائی کے پاس ایک مرغا ہوتا ہے۔ جو شاہ مال کے صح۔ن میں دیوار پھلانگ
کر داخل ہوتا ہے جب شاہ مال کی مرغیاں صحن میں موجود ہوتی تھیں تب شاه مال اسے آنے
سے نہیں روتی تھی، مگر جب شامال کے صحن میں اناج دیکھ کر مرغا داخل ہوتا تھا تب
شاه مال اسے برا بھلا کہہ کر مار بھگاتی تھی۔ اس پر جانی شاہ مال کو طعنےدیتی ہے ۔ان
طعنوں سے بچنے کے لئے شاه مال اپنے شوہر سے مرغا خرید لانے کےلئے اصرار کرتی ہے۔
آخر غلام خان ایک سفید رنگ کا مرغا لا دیتا ہے شاہ مال جب اپنے شوہر کے ہاتھ میں
مرغا دیکھتی ہے وہ خوشی سے پھولے نہ سمائی اور مرغے سے زور زور سے باتیں کرنے لگی
تا کہ مری جانی کو معلوم ہو جائے کہ شاہ مال بھی اب مرغے کی مالک بن گئی۔ رات کو
جب شاہ مال اور اسکا شوہر سونے لگے تو ان کا مرغ با نگ دیتا ہے ۔شاہ مال اس کی
شکایت اپنے شوہر سے کرتی ہے کیونکہ مرغے کی بے وقت با نگ معیوب سمجھی جاتی تھی اور
فیصلہ کیا کہ اس مرنے کودبح کروائے گی اور کئی مرتبہ اپنے شوہر سے بھی مرغے کوزبح کرنے
کے لئے کہا مگر غلام خان زبح کرنے سے انکار کرتا رہا
۔
آخر شاه مال صمدوقصائی کے پاس جاتی ہے۔ قصائی اسے مرغا لانے کے لئے کہتا ہیں ۔ جب
شاہ مال مرغالانے کے لئے آتی ہے۔ تو وہ اپنے صحن میں اپنے اور جانی کے مرنے کو آپس
میں جھگڑتے دیکھتی ہیں ۔ ان کی لڑائی دیکھ کر شاہ مال کافی پریشان ہو جاتی ہے کہ
کہیں اس کا مرغا ہار نہ جائے ۔ دونوں لڑائی دیکھ رہی تھیں اور ایک دوسرے کو طنز
کرتی تھیں ۔ آخر جانی کا مرغا بھاگ جاتا ہے اور شاہ مال کا مرغا پورے احاطے سے اس
کا پیچھا کر رہا تھا۔ شاہ مال اپنے مرغے کی جیت دیکھ کر کافی خوش ہو جاتی ہے اور
اپنے مرغے کو زبح کرنے کا ارادہ بھی ترک کر دیتی ہے۔
No comments:
Post a Comment