مضمون اردو
جماعت بارویں
سبق : یونیسکو کی چھتری( مجتبیٰ حسین)
سوال نمبر۲: مجتبیٰ
حسین کی حالات زندگی قلمبند کیجئے۔
جواب
: اردو کے ممتاز مزاح نگار ادیب مجتبیٰ حسین ۱۵۔ جلائی ۹۳۱اء میں سابقہ ریاست حیدر
آباد اور موجودہ ریاست کرناٹک کے ضلع گلبرگہ میں تولد ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر
حاصل کی ۔ ۱۹۵۳ء میں گلبرگہ سے انٹر میڈیٹ کا امتحان پاس کیا اور بی۔ اے عثمانیہ
یونیورسٹی سے کیا تعلیم ختم کرنے کے بعد کچھ دنوں محکمہ مال میں ملازمت کی۔ پھر
ملازمت چھوڑ دی اور روزنامہ سیاست سے وابستہ ہو گئے.
۱۹۷۲ء میں حکومت ہند نے اردو کے مسائل کا جائزہ لینے کیلئے گجرال
کمیٹی تشکیل دی مجتبیٰ حسین کااس کمیٹی کے شعبہ ریسرچ میں تقرر کیا گیا ۔ 19ستمبر
1974ء میں نیشنل کونسل آف ایجوکشنل ریسرچ اینڈ ٹرینگ کے پبلی کیشن ڈپارنمٹ میں
شعبہ اردو کے ایڈیٹر مقرر ہوئے ۔ انہیں کئی اعزازات بھی ملے ۲۰۰٨ء میں انہیں پدم
شری ایوارڈ دیا گیا۔ آج بھی تخلیقی کاموں میں لگے ہوئے ہیں۔27 مئی 2020 کو حیدر آباد میں انتقال
کر گئے۔
سوال نمبر۳: مجتبیٰ حسین کی ادبی خدمات کا جائزا پیش لیجئے۔
جواب : مجتبیٰ حسین کی شخصیت ہمہ گیر ہے وہ طنز و مزاح نگار
انشائیہ نگار مرقع نگار، سفرنامہ نگار ہونے کے علاوہ صحافی اور انشا پرواز بھی ہیں
مجتبی حسین کی ادبی اورتخلیقی زندگی کا
آغاز طالب علمی کے زمانے میں ہی ہوا وہ کالج کی طالبہ یونین کے بزم اردو کے جنرل سیکریٹری
رہے، وہ اچھے گلوکار اور اداکار بھی تھے۔ انہوں نے مزاحیہ کالم نگاری سے اپنے ادبی
سفر کی ابتدا کی بعدازاں انہوں نے کئی مزاحیہ مضامین ،خاکے اور سفرنامے لکھے۔ چند
اہم تصانیف کی تفصیل ذیل میں درج ہے تکلف برطرف طع کلام ، قصہ مختصر، بہرحال، آدی
نامہ، بلآخر، الغرض، چہرہ در چہرہ، آخر کار، ہوئے ہم جس کے دوست ، میرا کالم اور
آپ کی تعریف، وغیرہ۔
سوال نمبر۳:۔ درج ذیل سوالات کے مختصر جواب
لکھے۔
٭مصنف نے بیوی کو خط میں
کیا لکھا۔
جواب: مصنف نے ٹوکیو سے اپنی بیوی کو خط میں
لکھا’’وہ ہمیں آج ملی ہے دیکھنے میں کچھ خاص نہیں مگر پھر بھی اچھی ہے اب ہمیں اسی
کی رفاقت میں ٹوکیو کے شب روز گزارنے ہیں اور اسی کے سائے میں رہنا ہے۔
٭ مصنف اور
اسکی بیوی کے درمیان ہوئی بات چیت کو اپنے لفظوں میں لکھتے؟
جواب :۔ جونہی مصنف نے اپنی بیوی سے خیریت پوچھی
تو اسکی بیوی نے اس سے پہلا سوال یہی کیا کہ کمرے میں اکیلے ہو کہ وہ بھی تمہارے
ساتھ ہے۔ مصنف نے آنکھیں ملتے ہوئے کہا کہ رات کا ڈیڑھ بجا ہے اور تمہارے فون کی
گھنٹی پر جاگے ہیں، ہمارے ساتھ اس کمرے میں کوئی اورنہیں ہے۔ اسکی بیوی نے کہا کہ اس
وقت تو رات کے دس ہی بجے ہیں ۔ مصنف نے بات کاٹ کر جواب دیا کہ ہندوستان میں دس بجے
ہونگے۔
بیوی نے اس سے پوچھا کہ
دوسرے دن جو آپ کوٹو کیو میں ملی تھی وہ کون تھی، جسکا ذکرآپ نے خط میں کیا تھا۔
اس پرمصنف نے زور دار قہقہ مار کر جواب دیا کہ وہ یونیسکو کی چھتری ہے شاید ہم
چھتری لکھنا بھول گئے اور تم نے اس کا رشتہ عورت سے جوڑا۔ بیوی نے یہ پوچھا کہ
چھتری شادی شدہ ہے کہ غیرشادی شده،جس پرمصنف نے جواباً یوں کہا کہ بھلا چھتریوں کی
بھی شادی ہوتی ہے۔ بیوی نے کہا اس کا مطلب یہ ہوا کہ چھتری غیر شادی شدہ ہے، پھر
یہ بتاؤ کہ اس کی عمر کیا ہے۔ مصنف نے کہا کہ بڑی پرانی ہے اس کو پہلے بھی لوگ استعمال
کرچکے ہے۔ اس پر ان کی بیوی نے غمگین لہجے
میں کہا کہ خدا کے لئے راہ راست پر آجا تمہارے اولاد اب شادی کے قابل ہورہے ہیں
مصنف نے ایک بار پھر کہا کہ جس کا ذکر میں نے خط میں کیا ہے وہ تمہارے سر کی قسم سچ
مچ چھتر ی ہی ہے جس کے جواب میں اسکی بیوی نے کہا تبھی تو تم میرے سر پر ایک اور
چھتری لے آرہے ہو اور ایک دم فون کاٹ ڈالا۔
٭سمنار کے کچھ اور مندوبین
کے نام لکھئے ۔
جواب : مس جو ،مس پرینیا، مسٹر جیا کوڑی۔
٭مصنف جاپان کو
اطمنان کے ساتھ کیوں نہ دیکھ سکا؟
جواب : مصنف جاپان کو
اطمینان کے ساتھ اسلئے دیکھ نہ سکا کیونکہ یونیسکو کی چھتری اس کے ساتھ تھی ۔محض
اس چھتری کی خاطر مصنف کو ایک جگہ دو دو مرتبہ جانا پڑا۔ پہلی بار اس مقام کو
دیکھنے کے لئے اور دوسری مرتبہ اپنی بھولی ہوئی چھتری کو واپس لانے کے لئے۔
سوال نمبر۵:نہایت مختصر جواب طلب سوالات۔
٭یونیسکو میں
مصنف کو دوسرے دن کیا ملا تھا؟
جواب : مصنف کو یونیسکومیں دوسرے دن ایک چھتری
مل گئی تھی۔
٭ مصنف جاپان
کیوں گیا تھا۔
جواب ۔ یونیسکو کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لئے۔
٭ چھتری پر
مصنف کا نام کس طرح لکھا گیا تھا؟ |
جواب : مصنف کا نام چھتری
پرگم ٹیپ سے چپکایا گیا تھا۔
٭مصنف کو کس کس
جگہ پر چھتری ڈھونڈنے کے لئے دبارہ جانا پڑا؟
جواب:۔ جاپان ریڈیو، جاپان کی زنانہ یونیورسٹی،
یوکوہاما، او میا، نارا ،کیوٹو ، وغیرہ وغیرہ۔
٭چھتری کی قیمت
کتنی تھی؟
جواب : چھتری کی کل قیمت ایک ہزار تھی۔
٭چھتری ڈھونڈنے
میں مصنف کا کل کتنا خرچ ہوا؟ |
جواب: چھتری ڈھونڈنے کے لئے مصنف کو پانچ ہزار
ین کا خرچہ ہوا۔
٭ مصنف جاپان
میں کتنے دن رہا ؟
جواب:۔ مصنف ۳۵ روز تک
جاپان میں رہا۔
سوال 6: کس
نے کہا کس سے کہا، اور کیوں کہا؟
٭میری خیریت جائے بھاڑ میں،
پہلے یہ بتاؤ اس وقت کمرے میں اکیلے ہو یا وہ بھی تمہارے ساتھ ہے۔
جواب:۔ مصنف کی بیوی اسے یہ جملہ کہتی ہے کیونکہ
اسے شک تھا کہ مصنف جاپان میں کسی خاتون کے ساتھ شب وروز گزار رہا ہے۔
٭ بھلا چھتریوں
کی بھی کہیں شادی ہوتی ہے۔
جواب :۔ یہ جملہ مصنف اس کی بیوی کو تب کہتا ہے
جب اس کی بیوی اسے چھتری کی عمر پوچھتی ہے کہ چھتری کی عمرکتنی ہے کیونکہ وہ اس پر
شک کر رہی تھی اور چھتری کو عورت مراد لے رہی تھی۔
٭میں کل ہی
جاپان سے چلا جاؤں گا مجھے یایساد ہلانے والاسمنا رنہیں چاہے۔
جواب:۔ یہ جملہ مسٹر جیا کوڈی زلزلے کےجھٹکے سے
گہرانے کے وقت مجتبیٰ حسین سے کہتا ہے
٭اب آپ
ہندوستان جا کر اپنی بیوی کو بھی اسی طرح ساتھ رکھیں گے جس طرح یہاں چھتری کو رکھا
کرتے تھے۔ جواب:۔ یہ عمل مس جونے مذاق میں مجتبیٰ حسین
سے کہا، کیونکہ مجتبیٰ جاپان میں قیام کے دوران چھتری کا کافی دھیان رکھتا ہے۔
٭کیا عجب کہ اب
کی بار ہم بادل بن کر تجھ پر برسنے آجائیں۔
جواب:۔ یہ جملہ مصنف چھتری
سے مخاطب ہو کر اس کی یاد میں بولتا ہے۔
سوال نمبر7:۔
درج ذیل محاورات کے معنی لکھ کر ان کو جملوں میں استعمال کیجئے۔
گن
گانا |
:
تعرف کرنا |
احمد ہمیشہ اپنے دوست کے گن گاتا رہتا ہے |
رسی
جل گی پر بل نہ گیا |
اپنی
عادت پر اڑے رہنا |
احمدنے
اپنی غریبی میں بھی شاہی عادتیں نہیں چھوڑیں ۔ گویارسی جل گئی پربل نہ گیا |
ٹانگ
اڑانا |
۔
رکاوٹ ڈالنا |
میری
کام میں ٹانگ مت اڑانا |
آنکھیں
بچھانا |
انتظارکرنا |
ماں
اپنی بیٹی کے انتظار میں آنکھیں بچھائی کر کھڑی تھی |
سوال نمبر8:۔
خالی جگہوں کو پر کر کے جملےمکمل کیجئے۔
مجتبی حسین........... کو.................. میں
پیدا ہوئے ۔
اردو مسائل کا جائزہ لینے کے لئے مرکزی حکومت نے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کمیٹی بنائی۔
مجتبی حسین کو٨ ۲۰۰ء میں
..۔۔۔۔... کو ملا ۔
یونیسکومیں مصنف کو دوسرے
ہی دن ۔۔۔۔۔۔۔ملی تھی۔
سری لنکا کے مندوب کا نام
................... تھا۔
جواب :- (1)۵ اجلائی ۱۹۳۱ء (ب) کرنائک (۲) گجرال
(۳) پدم شری (۴) چھتری (۵ جیا کوڈی
No comments:
Post a Comment