تازہ ترین

Monday, March 15, 2021

مرثیہ کی تعریف ،صنفی شناخت ،اجزائے تر کیبی اور آغاز وارتقاء

مرثیہ کی تعریف ،صنفی شناخت ،اجزائے تر کیبی اور آغاز وارتقاء

اردو مرثیہ

مرثیہ عربی لفظ "رثا" سے مشتق ہے جس کے معنی میت پر رونے کے ہیں ۔ مرثیہ کا اطلاق ایسی نظموں پر ہوتا ہے جن میں رثائی وصف ہو لیکن اب بالخوص اردو مرثیہ اس نظم کو کہتے ہیں جس کا موضوع واقعات کربلا ہوں ۔ مرثیہ میں اگر کربلا کے شہداء کے بغیر کسی دوسرے شخص کا تذکرہ ہو ایسی نظم کو شخصی مرثیہ یا تعزیتی نظم کہتے ہیں ۔ مرثیہ اردو شاعی کی ایک مقبول و معروف صنف ہے ۔ابتدا میں مرثیہ دوبتی، مثلث ، مربع اور مخمس کی ہیت میں لکھا جاتا تھا ۔مرثیہ کو مسدس کی ہیت میں سب سے پہلے سوداؔ نے لکھا اور آج مراثی کے ساتھ مسدس کی ہیت مخصوص ہو گئی ہے۔مرثیہ کی اجزائے ترکیبی آٹھ ہیں چہرہ،سراپا،رخصت، آمد، رجز، رزم، شہادت، بین۔  

چہرہ ۔چہرہ تمہید ہوتا ہے جس میں شاعر حمد ،نعت، منقبت ،مکہ سے پر خطر حالات ، گرمی کی شدت ، اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تعریف کرنے پر فخر کا اظہار کرتا ہے ۔

سراپا: سراپا ہیرو کا تعارف ہوتا ہے یعنی ہیرو کے قد و قامت .خد و حال .لباس اور دیگر اوصاف بیان کیے جاتے ہیں ۔سراپا لکھنے میں شاعر اپنا زور قلم صرف کردیتا ہے

٣ ..رُخصت:اِس میں ہیرو کا حضرت اِمام حسین رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے جنگ میں جانے کے لیے اجازت طلب کرنا اور عزیزوں سے رخصت حاصل کرنے کا بیان ہوتا ہے .

٤ ..آمد:اِس میں ہیرو کا گھوڑے پر سوار ہو کر شان و شوکت سے میدان جنگ میں جانے اور آمد کے سلسلے میں ہیرو کے گھوڑے کی تعریف کا بیان ہوتا ہے .میدان جنگ میں آمد کا منظر زیادہ طویل نہیں ہوتا یہ بند رخصت اور رجز سے جڑا ہو ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی آمد کے موقع پر کی تعریف بھی کی جاتی ہے ۔

٥ ..رجز:اِس حصّے میں ہیرو اپنے خاندان کی تعریف .اپنے بزرگوں کے کارناموں کا ذکر اور جنگ کے معملات میں اپنی مہارت اور بہادری کا بیان کرتا ہے .عربوں میں عام رواج تھا کہ دو حریف جب میدان جنگ میں آمنے سامنے ہوتے تھے تو جنگ سے پہلے ایک دوسرے کو للکارتے تھے اپنے آبا و اجداد کی شجاعت ،عظمت، وغیرہ کا ذکر کرتے تھے اس اظہار کو اصلاحاً رجز کہتے ہیں

٦ ..جنگ: یہ مرثیہ کا نہایت ہی اہم حصہ ہوتا ہے ۔اِس میں ہیرو کا کسی نامی پہلوان یا دشمن سے بڑی بہادری سے لڑنا .جنگ کے سلسلے میں ہیرو کے گھوڑے .تلوار اور دوسرے ہتھیاروں کی تعریف کی جاتی ہے اور جنگ کے واقعات بیان کے ہیں .

٧ ..شہادت: مرثیہ میں یہ حصہ بھی جاندار ہوتا ہے کیونکہ اسی بیان پر بین کی شدت کا انحصار ہوتا ہے ۔اِس میں ہیرو کا دشمن کے ہاتھ سے زخمی ہو کر شہید ہونے کا بیان ہوتا ہے اور شہادت کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں .

٨ ..بین: یہ مرثیہ کا آخری جز ہوتاہے ۔بین میں ہیرو کی لاش پر اس کے عزیزوں .رشتہ داروں اور مخصوص عورتوں کے رونے اور بین کرنے کا بیان ہوتا ہے ..

آغاز و ارتقا

اردو میں مرثیہ دکن کے صفیائے کرام کی سرپرستی میں پروان چڑھا ۔ اشرف بیابانی کی نوسر ہار (1503) کو مرثیہ کا نقطہ آغاز سمجھا جاتا ہے اسکے بعد حضرت شاہ برہان الدین جانم کا مشہور مرثیہ ملتا ہے اس علاوہ شاہ راجو ، قلی قطب شاہ ، غواصیؔ، کے یہاں بھی مرثیے ملتے ہیں ۔شمالی ہند میں مرثے کا آغاز روشن علی کے مرثیہ "عاشور نامے " سے ہوتا ہے۔ اسکے بعد فضل علی فضلی کی " کربل کتھا " کا نام بھی آتا ہے ۔جو نثر میں ہے ۔اسکے بعد مشکینؔ، محبؔ، یکرنگ، قائمؔ نے اس روایت کو آگے بڑھایا ۔ اٹھاروں صدی میں دلگیر ؔ، فصیحؔ، خلیقؔ، اور ضمیرؔ، نے اس صنف کی آبیاری کی اسکے بعد ضمیر کے تلمیذ دبیرؔ اور خلیقؔ کے بیٹے انیس نے اس صنف کو بام عروج پر پہنچایا ۔

  

1 comment: