جماعت
:بارویں
سبق نمبر2
گلی
ڈنڈا
سوال نمبر۳: سیاق وسباق
پیش کر کے مندرجہ ذیل جملوں کی وضاحت کیے؟
الف:۔ میراداؤ دے کر جاوامرودسمرود میں نہیں
جانتا۔
جواب:- (وضاحت) جب گیا کی داؤ کھیلے کی باری آئی تو اس کا دوست کھیل ختم کر کے جانے لگتا ہے مگر گیا اس سے داؤں لیئے بغیر جانے نہیں دیتا ہے ۔ تب گیا کا دوست اس سے اپنا دیا ہوا امرود وداؤں کے بدلے رکھنے کو کہتا ہے۔ لیکن گیا کہتا ہے میں امرود شمرود نہیں جانتا ہوں مجھے اپنا داوں دو وہ باگنے لگتا ہے اور گیا اس سے ڈنڈے سے مارتا ہے۔
(ب) مجھے تو تمہاری یاد
برابر آتی تھی تمہارا ڈنڈا جو تان کر جمایاتھا یاد ہے۔
جواب :(وضاحت) جب گیا کا دوست انجینئر بن کراسکے گاوں آتا ہے اور دونوں کی ملا قات ہوجاتی ہے تب گیا کا دوست اسے اپناچین یاد دلاتا ہے جوبچپن انہوں نے ساتھ گزارا تھا۔ اسی اثنا میں گیا کے دوست کو یاد آتا ہےکہ گیا کوداؤ نہ کھلانے پر گیا نے اسے ڈنڈے سے مارا تھا۔
ج:۔اب وہ مجھے
اپناجوڑ نہیں سمجھتاوہ بڑا ہو گیا ہے، میں چھوٹا ہو گیا ہوں۔
جواب :- (وضاحت) انجینئر
بنے کے بعد جب گیا کا دوست اس سے گلی ڈنڈا کھیلتا ہے اور کئی بار دھاندلی کرتا ہے
مگر گیا یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجودبھی خاموش تھا۔ کیونکہ وہ اب اس کا عزت اور ادب
کرتا تھا اور اپنے آپ سے بڑا سمجھتا تھا۔
سوال نمبر۵: مندرجہ ذیل
محاوارات کے معنی لکھے۔
محاورات
. |
معنی |
رنگ
چوکھا دینا |
رونق
بڑھانا |
تال
ٹھونکنا ۔ |
خم
ٹھونکنا |
پھولا
نہ سمانا |
خوش
ہونا |
جی
لوٹ پوٹ ہونا |
فریفتہ ہونا ، شیدا ہونا ، عاشق ہونا |
-
کایا پلٹنا |
حالت
تبدیل ہونا |
سوال نمبر: گلی ڈنڈا
افسانے میں ایسے واقعات تلاش کیے جو مندرجہ ذیل بیانات کے لئے ثبوت کے طور پر پیش
کیے جا سکیں۔
. ا۔ بچےمعصومیت اور خلوص
کی بناپر انسان اور انسان میں فرق نہیں کرتے۔
جواب : گیا کا دوست ایک امیر آدی کا بڑا بیٹاتھا
اور کگا خودایک غیرب باپ کا بیٹا تھا لیکن اس بناپر ان میں کبھی بھی اختلاف نہ
ہوتا تھا بلکہ ہمیشہ ایک دوسرے سے کھیلتے تھے اور کبھی بھی دوستی میں کمی نہ آتی
تھی تب وہ اتنے معصوم ہوتے ہیں کہ نہیں کسی قسم کا فرق محسوس نہیں ہوتاتھا ۔
2۔بچین کے ساتھیوں کا پیار ہمیشہ قائم رہتا ہے۔
جواب:
(وضاحت) انجئنیر بنے کے بعد گیا کا دوست گاؤں آ کر سب سے پہلے گیا سے ملتا ہے
کیونکہ ان کی دوستی اتنی گہری تھی کہ ایجنئیربنے کے بعد بھی اس میں کوئی کی نہ آئی
تھی اور پھر بچین کی طرح گلی ڈنڈا کھیلنے لگی
۲- غریبی اور امیری دوستوں میں دوریاں پیدا کرتی ہے۔
جواب
:(وضاحت) گیا کا دوست انجئنیر بنے کے بعد گیا سے گلی ڈنڈا کھیلنے لگتا ہے اور وہ
طرح طرح سے کھیل میں بے ایمانی کرتا تھا گیا یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی اسے نہیں
ٹوکتا کیونکہ گیا سمجھ رہا تھا کہ وہ ایک ادنی سا انسان ایک باعزت انسان سے کھیلتا
ہے اس طرح امیری اور غریبی ان کی خوشی میں دوریاں پیدا کرتی ہے
سوال نمبر 7۔ اردو افسانے کی ابتدای نوٹ لکھے۔
جواب : مختصر افسانے کی صنف اردو میں مغرب کے
اثرات کی دین ہے۔ اردو افسانے کا آغاز بیسویں صدی کے وسط میں ہوا اور پریم چندنے
پہلی بار افسانے کے فن پر توجہ کی ۔ انکے ابتدائی دور کے افسانوں میں دو موضوعات
خاص طور سے پیش کیے گئے ہیں ۔ ہندوستان کی قدیم تہذیب ، انکی روایات اور اعلی
اخلاقی اقدار۔ ان کا اولین افسانوی مجموعہ" سوز وطن‘‘ ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا۔
اسکے بعد پریم چند کی روایت سے متاثر ہونے والے معاصر ادیبوں کی ایک بڑی تعداد
منظر عام پر آگئی جن میں سے عباس حسینی ، اعظم کر بیوی اور سدرشن وغیره قابل ذکر
ہیں۔
سوال :منشی پریم چند کی کہانی گلی ڈنڈا کا خلاصہ
اپنے الفاظ میں لکھے۔
جواب :منشی پریم چنداپنے مضمون گلی ڈنڈامیں
لکھتے ہیں کہ ہندوستانی کھیلوں کی نسبت انگریزی کھیل بہت مہنگیں ہیں اور انکو
کھیلنے کے لئے وسیع میدان کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبک گلی ڈنڈا ایک ایسی کھیل ہے جس میں
نہ وسیع میدان کی اور نہ قیمتی چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے کسی درخت کی شاخ کاٹ کر گلی
ڈنڈا بنا کرکھیل شروع کیا جاتا ہے۔ مصنف اپنے چین کو یاد کرتا ہے۔ جب وہ اپنے دوست
گیا کے ساگلی ڈنڈاکھیل رہا تھا ایک دن وہ پدا رہا تھا اور کھیل میں مصنف بدتے پدتے
تھک جاتا ہے اور بھاگنے لگتا ہے مگر گیا اسے داود یئے بغیر گھر جانے سے روک رہا ت۔اسی
دوران دونوں میں تکرار ہو جا تا ہے اور گیا اپنے دوست کو تھپڑ مارتا ہے اس پر گیا
کا دوست رونے لگتا ہے اور گیا بھاگ جاتاہے۔
ان
ہی دنوں گیا کے دوست کے والدکا تبادلہ کسی دوسری جگہ ہو جاتا ہے اور انہیں اس گاوں
سے شہر جانا پڑھتا ہے۔ بیسں سال گزر جانے کے بعد گیا کا دوست انجینئر بن کر ضلع کے
دورے پراسی گاوں سے گزرتا ہے سب سے پہلے وہ گیا کوتلاش کرتا ہے۔ دونوں کےبیچ کافی
باتیں ہو جاتی ہیں اسے دوران مصنف اسے بیسں سال پہلے ادھورا چھوڑا ہواکھیل دبارہ کھیلنے
کے لئے راضی کرتا ہے۔ پھر گاؤں سےدورکھیلتےہے۔
مصنف
کھیل میں طرح طرح کی بے ایمانی کرتا ہے مگرگیاؔ سب کچھ دیکھنے کے بعد بھی کچھ نہ
کہتا تھا۔ جب گیا ؔکی باری آئی تو وہ ایک منٹ میں اپنا داؤ کھو بیٹھا اور دونوں واپس لوٹ گئے۔ راستے میں
گیاؔ اپنے دوست کو دوسرے دن کھیلے جانے والے میچ میں آنے کی دعوت دیتا ہے اور مصنف
اسے قبول کرتا ہے۔ دوسرے دن جب مصنف کھیل دیکھنے کے لئے آیا اس کی آنکھیں دھنگ
رہیں کیونکہ مصنف کو گیا ؔمیں وہ کل کی سی بے دلی دیکھنے کو نہ ملے تب گیا کا دوست
سمجھ گیا کہ گیاکل مجھ سے کھیل نہیں رہا
تھا بلکہ کھیلا رہا تھا میری امیری اب ہمارے درمیان دیوار بن گئی ہے میں اب صرف اس
کا ادب پا سکتا ہوں لیکن اس کا ہم جول نہیں بن سکتا ہوں ۔ وہ اب مجھے اپناجوڑ نہیں
سمجھتا وہ بڑا ہو گیا ہے اور میں چھوٹا ہوگیا ہوں۔
No comments:
Post a Comment