تازہ ترین

Monday, March 22, 2021

مرحوم کی یاد میں || پطرس بخاری || سبق نمبر 3|| class 12th urdu notes

سبق نمبر۔3

جماعت:بارویں

مرحوم کی یاد میں  

دیوان مرحوم کی یاد میں


حالات زندگی /ادبی خدمات/ طرز تحریر پطرس بخاری 

سوال نمبر۵۔ پطرس بخاری کے مضمون مرحوم کی یاد میں‘‘ کا خلاصہ لکھے۔

خلاصہ مرحوم کی یاد میں ایک مزاحیہ مضمون ہے اور اس کے پس پردہ طنزکا عنصر موجود ہے۔ پطرسں لکھتے ہے کہ میں اور مرزاصاب ایک  دن برآمدے میں بیٹھے تھے دونوں اپنے اپنے خیالوں میں محو تھے۔ مرزا خدا جانے کیا سوچ رہے تھے لیکن میں زمانے کی ناسازگاری پرغورکر رہا تھا اس دوران میں نے ایک موٹر کار خریدنے کا اظہار کیا مرزا صاحب کہنے لگے اس کے لئے پیسوں کی ضرورت پڑے گی جو آپ کی  بس کی بات نہیں ہے۔ اسلئے میری ایک تجویز ہے کہ آپ میرا بائسیکل لے لو جو میں آپ کو مفت میں دو گالیکن میں نے مفت لینے سے انکار کیا آخر چالیس روپے مٹھی میں بند کر کے مرزا کے جیب میں ڈال دیئے۔

گھر آیا تو مرزانے نوکر کے ذریعے سائیکل روانہ کے۔ رات کو بستر پر بائیکل پر سیر کرنے کے لئے بہت کچھ سوچتارہا اور کشمیر کی سیر کرنے کا خیال کر رہا تھا۔ جب سائیکل پر سوار ہواتو طرح طرح کی آواز میں سنائی دینے لگی۔ کیونکہ جو سائیکل مرزانے مجھے دیا تھاوہ بہت پرانا تھا۔ اسلئے میرے لئے تکلیف دہ ثابت ہوا۔ آس پاس کے جتنے بھی لوگ تھے وہ سراٹها کر میری طرف دیکھتے تھے جب سائیکل ، اترائی پرز را تیز ہوا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے فضا میں بھونچال سا آ گیا ہو۔ کئی مرتبہ ٹھیک کروایا مگر خرابی جوں کی توں ہی رہی آخر تنگ آکر لوگوں کی ریمارکس کی پروا نہ کرتے ہوئے بائسیکل کو دریا میں ڈال دیا اس کے بعد مرزا کے گھر جا کر وہ سارےآوزار مرزا کو واپس کیے جو وہ مجھے مفت عنایت کر چکے تھے اور گھر جا کرعلم کیمیا کی کتاب کا مطالعہ کرنے لگا۔

سوال نمبر1 : مرحوم کی یاد میں‘‘ کے مطالعے کے دوران آپ نے کس کس مقام پرشوخی ، مزاح اور طنزمحسوس کیا۔ جواب :۔ پوری کہانی طنز مزاح سے بھری ہوئی ہے۔ جب مصنف سائیکل پر سوار ہو جاتا ہے اور بائیسکل سے طرح طرح کی آوازیں نکل رہی تھی کھبی گدی نیچے ہو جاتی تھی اور بھی ہنڈل دب جاتا ہے اور سائیکل سوار سرکس والا لگتا تھا جب مصنف کی سائیکل اترائی پر زرا تیز ہو جاتی ہے اور فضاء میں بھونچال سا آجاتا ہے آس پاس کے سبھی لوگ اسے دیکھ رہے تھے مائیں اپنے بچوں کو سینوں سے لگاتی ہیں۔

 جب مصنف سائیکل بیچنے کیلئے مستری کے دکان پر جاتا اور اس کے ساتھ گفتگو کرتا ہے

جب مصنف اپنے پیدل چلنے اور دوسروں کے گاڑیوں پر سوار ہونے کا ذکر کرتا ہے اور کہتا ہے کہ جب میں گاڑیوں کے گردوغبار سے تنگ آتا ہوں تو اس دن گھر آ کر علم کیمیا کی کتاب کا مطالعہ کرتا ہوں شاید بم بنانے کا کوئی نسخہ ہاتھ آئے۔

جب مصنف مرزاسے بغیر پیسوں کے کار خریدنے کی ذکر کرتا ہے

سوال نمبر۳: "مرحوم کی یاد میں" مضمون آپ کو کیسا لگا اور کیوں؟ طنزیہ مزاحیہ یا ساده؟

 جواب:۔ مضمون مزاحیہ ہونے کے ساتھ ساتھ طنزیہ بھی ہے اس مضمون کو پڑھتے وقت قاری خود بخود ہسنے لگتا ہے پطرس بخاری نے سائیکل کو مرحوم کہ کر کہانی کی شروعات کی ۔ جس پر سیر کرنے کے کئی خواب دیکھے تھے اور یہ دے کر مصنف سوار ہوا تھا لیکن سائیکل اتنا پرانا تھا کہ ایک ہی دن میں اسے دریا میں پھینکنا پڑا اور اسے مصنف کو دوست کی مکاری اور چالاکی بھی ظاہر ہوگئی۔

سوال نمبر4: مختصر نوٹ لکھے۔ طنز  ۔مزاخ :

طنز :۔جیسے انگریزی زبان میں satire کہتے ہیں اس کے لئے اردو زبان میں کوئی لفظ نہیں ہے جسکے ذریعے اس کا مفہوم ادا ہو سکے ۔ لے دے کے ہجو یاطنز کا لفظ اس کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے جوا سکے معنوں سے قریب رہے۔ satire کی اصلی جولانگاه سماج یا سوسائٹی کی برائیوں کمزور یوں اور حماقتوں کو مضحکہ خیز بنا کر پیش کرتا ہے۔ مگر اس میں تہذیب اور ادبیت کے دامن کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کی ضرورت ہے۔

 مزاح۔ مزاح ایک ایسا فطری جذبہ ہے جسکی بنیادخوش طبعی ہے اور جس کا نتیجہ شادمانی کی کیفیت ہے۔ ایسا مزاح جس میں بے ساختی کا عنصر موجود ہو انسان کو زندگی کا لطف عطاکرتا ہے ۔مزاح تناؤ کے ماحول کو خوشگوار بناتا ہے اور انسان کے خیالات اور طرز زندگی پر اثرانداز ہونے کی صلاحت بھی رکھتا ہے ۔مزاح ایک ایسا ہتھیار بھی ہے جو انسان کی شخصیت کو سنوارنے اور اس کی خامیوں کو دور کرنے کے لئے کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ مزاح نگار اپنے فن کے ذریعے سماج کو بدلنے اور اسے راہ دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہی مزاح نگار ادب میں منفرد مقام کا حامل ہوتا ہے۔

سوال نمبر 7: مندرجہ ذیل جملوں کی وضاحت کیجئے۔

٭میں جاتو سامنے کور ہا تھا ۔لیکن میرا تمام جسم دائیں طرف کومڑ اہواتھا۔

 جواب: (وضاحت) جب مصنف سائیکل پر سوار تھا اور سامنے کی طرف جارہا تھا تب اس کا سارا جسم دائیں طرف مڑا ہوا تھا۔

٭ بھئی صدیاں ہی گز ر گی لیکن اس سائیکل کی خطا معاف ہونے میں نہیں آتی۔

 جواب :۔ جب مصنف مستری کے پاس سائیکل بیچنے کے لئے جاتا ہے۔ تب مستری اسے کہتا ہے کہ یہ سائیکل اتنا پرانا ہو چکا ہے مگر اس کے کے باوجود اسے نہیں چھوڑا گیا۔

٭دیکھو بیٹا سرکس کی سائیکل ہے اس کے دونوں پہیاں الگ ہوتے ہیں۔

جواب:۔ (وضاحت) جب مصنف کے سائیکل کی دونوں پہیاں علیحدہ ہوئے تھے اور وہ انہیں ہاتھ میں لئے جارہا تھا تب ایک آدی اپنےبیٹے کو سائیکل دکھاتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ کوئی عام سی چیز نہیں ہیں بلکہ سرکس کی سائیکل ہیں اس کی دونوں پہیاں الگ الگ ہوتی ہے۔

 ٭میں آپ جیسے خدا رسیدہ بزرگ کے گھر میں وضو کئے بغیر کیسے داخل ہوسکتا ہوں

جواب (وضاحت) جب مصنف سائیکل کو دریا میں پھنکنے بعد مرزا کے گھر وہ آوزار دینے کے واسطے جاتا ہے جو مرزانے اسے مفت میں دیئے تھے۔ تب مرزااسے اندر آنے کے لئے کہتا ہے مصنف واپس طنز کرتے ہوئے جواب دیتا ہیں کہ آپ جیسے بزرگ نیک انسان کے گھر میں بغیر وضو کیسے داخل ہوسکتاہوں۔

 سوال نمبر 8: پطرس بخاری نے جو سائیکل مرزاسے خریدی تھی اس کا خاکہ پیش کیجئے۔

 جواب ۔ پطرس بخاری نے جو سائیکل مرزاسے خریدی تھی اس کی حالت بہت خستہ تھی اس کے تمام آوزاروں پرزنگ لگ گئی تھی تمام پیچ کھیسے ہوئے تھے۔ جن کی وجہ سے سائیکل سے عجیب وغریب آوازیں آتی تھی۔

 سوال نمبر9: مرزا کے کردار کی وضاحت کی؟ |

 جواب: مرزا ایک خودغرض اور مکار دوست ہے۔ جو اپنی چالاکی سے صاف دل دوست کو ایک خستہ سائیکل بھیج دیتا ہے اور رات ہی کو سائیکل مصنف کے گھر روانہ کرتا ہے کہ کہیں اس کی نیت نہ بدل جائے۔

 

 


 

 

No comments:

Post a Comment