تازہ ترین

Saturday, July 4, 2020

تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ مولانا الطاف حسین حالیؔ

مسدس مد و جز اسلام

تعلیم سے بے توجہی کا نتیجہ
مولانا الطاف حسیین حالیؔ



تشریح
یہ بند حالی کی مشہور نظم مسدس مدو جز اسلام سے لئے گئے ہیں 
1.جنہوں نے کی تعلیم کی قدر و قیمت
 نہ جانی مسلط ہوئی ان پر ظلمت
ملوک اور سلاطین نے کھوئی حکومت
 گھرانوں پہ چھائی امیروں کی نکبت
رہے خاندانی نہ عزت کے قابل
 ہو ئے سارے دعوے شرافت کے باطل
تشریح : مولانا الطاف حسین حالی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کی جن لوگوں نے تعلیم کی قدر و قیمت نہیں سمجھی اور تعلیم حاصل نہیں کی وہ ظلمت کے شکار ہوگئے۔ علم سے دوری کی وجہ سے بادشاہوں کی بادشاہتیں ختم ہوگیں امیر اور مالدار لوگ افلاس کی شکار ہوگئے خاندانی لوگ اپنی عزت اپنا وقار کھو بیٹھے ۔
2۔نہ چلتے ہیں واں کام کاریگروں کے
 نہ برکت ہے پیشہ میں پیشہ وروں کے
بگڑنے لگے کھیل سوداگروں کے
 ہوئے بند دروازے اکثر گھروں کے
کماتے تھے دولت جو دن رات بیٹھے
 وہ اب دھرے  ہاتھ پر ہاتھ بیٹھے
تشریح : مولانا الطاف حسین حالی نظم کی اس بند میں فرماتے ہیں کی تعلیم سے دوری کی وجہ سے کاریگروں اور پیشہ ور لوگوں کی کمائی میں کمی آئی جو تجارت پیشہ لوگ تھے وہ بدحال ہوگئے کچھ لوگ تعلیم سے دوری کی وجہ سے اس قدر بد حال ہوگئے کہ ان کے گھروں کو تالے پڑ گیا ۔اور ہنر مند لوگ بے کار ہوئے کیونکہ وہ زمانے کے ساتھ نہ چل سکے ۔
3۔ ہنر اور فن واں ہے سب گھٹتے جاتے
 ہنر مند ہیں روز و شب گزرتے جاتے
ادیبوں کے  فضل و ادب گھٹتے جاتے
 طبیب اور ان کے مطب گھٹتے جاتے
ہوئےپست سب فلسفی اور مناظر
 نہ ناظم ہیں سر سبز ان کے نہ ناشر
تشریح نظم کے اس بند میں مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں کہ لوگ جب اپنے آپ کو تعلیم سے آراستہ نہیں کریں گے تو فن اور ہنر  روز بروز گھٹتا جائے گا ادیب اور دانشور بھی جب تعلیم سے دوری اختیار کریں گے تو وہ بھی مفید ادب تخلیق نہ کر سکیں گے ۔تعلیم سے بے توجہی برتنے والے چاہیے حکیم ہو یا فلاسفر ان کے کام بے فائدہ ہو کر رہ جاتے ہیں اور ان سے وابستہ دوسرے افراد چاہے ناظم ہو یا ان کی تحریروں کو چھاپنے والے سب بے کار اور پست ہوجاتے ہیں
3۔ اگر ایک پہننے کو ٹوپی بنائے
 تو کپڑا وہ ایک اور دنیا سے لائے
جو سینے کو وہ ایک سوئی منگائیں
  تو مشرق سے مغرب میں لینے کو جائے
ہر اک شے میں غیروں کے محتاج ہے وہ
 مکینکس کی رو میں تاراج ہے وہ
تشریح مولانا الطاف حسین حالی اس بند میں فرماتے ہیں کہ اگر ہمارے کاریگروں  کو ایک ٹوپی بنانے ہو تو ان کے پاس کپڑا میسر نہیں ہے وہ انہیں دوسرے ممالک سے لانا پڑتا ہے اور ٹوپی کی سلائی کے لیے جس سوئی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی ان کے پاس نہیں ہے وہ بھی انہیں دوسرے ممالک سے منگوانی پڑتی ہے گویا ہم ہر چیز کے لئے دوسروں کے محتاج ہے کیونکہ ہم نے اپنے آپ کو جدید تعلیم سے آراستہ نہیں کیا ہے
4۔ جو مغرب سے آئے نہ مال تجارت 
تو مر جائے بھوکے وہاں اہل حرفت
ہو تجار پربند راہ معیشت
 دکانوں میں ڈھونڈے نہ پائیں بضاعت
پرائے سہارے ہیں بیوپار واں سب
طفیلی ہیں سیٹھ اور تجار واں سب
مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں کہ اگر مغربی ممالک سے تجارت کا مال نہ آئے جو کہ وہاں کے کارخانوں کی پیداوار ہے تو تجارت پیشہ لوگوں کے مر جائیں گے اور ان کے معاش کمانے کے ذرائع بند ہوجائیں گے ان کے دوکانوں پر مال کا فقدان ہو جائے گا کے یہ جو ہماری تجارت پیشہ لوگ ہیں یہ دوسروں کے سہارے جیتے ہیں یہ جتنے بھی تاجر ہے تعلیم کے بغیر ان کی کوئی بنیاد نہیں ہے یہ غیروں کے بھروسے اپنا کام چلا رہے ہیں
5۔ یہ ہیں ترک تعلیم کی سب سزائیں
 وہ کاش اب بھی غفلت سے باز اپنی آئیں
مبادا راہ عافیت پھر نہ پائیں 
 کہ ہیں  بےپناہ آنے والی بلائیں
ہوا بڑھتی جاتی سر رہگذر ہے
 چراغوں کو فانوس بن اب خطر ہے
تشریح مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں جن سے زائد کا ذکر کیا گیا ہے یہ سب تعلیم سے دوری کی سزا یہی حال مزید فرماتے ہیں خدا کرے میری قوم دیر ہونے سے پہلے کی غفلت کی نیند سے بیدار ہو جائے کیونکہ مستقبل بہت کٹھن ہے آنے والے زمانے میں ایک ایسی ہوا چلنے والی ہے جو ان چراغوں کو بجھا دے گی جو فانوس میں محفوظ نہ ہوں گے یعنی جو لوگ جدید تعلیم سے آراستہ ہوں گے وہی اس آندھیوں تیز ہوا کا مقابلہ کر سکیں گے اور اپنے آپ کو تباہی سے بچا سکیں گے
6۔ لیے فرد بخشی دوران کھڑا ہے
 ہر اک فوج کا جائزہ لے رہا ہے
جنہیں ماہر اور کرتبی  دیکھتا ہے 
انہیں بخشتا تیغ و طبل و نوا ہے
  یہ ہیں بے ہنریک قلم چھٹتے جاتے 
سالوں سے ان کے نام ہے کٹے جاتے
تشریح نظم کے اس زبان میں مولانا الطاف حسین حالی فرماتے ہیں کے زمانے کا فوجی عہدیدار لوگوں کا جائزہ لے رہا ہے کون زمانے کے ساتھ چلنے کے لائق ہیں اور جن لوگوں کو زمانے کے ساتھ چلنے کے لائق سمجھتا ہے انہیں زندگی گزارنے کا سازوسامان فراہم کرتا ہے اور جنہیں نااہل سمجھتا ہے انہیں خارج کردیا جاتا ہے انہیں ترکی بہبود کی فہرست سے نکال دیا جاتا ہے

No comments:

Post a Comment