تازہ ترین

Tuesday, June 2, 2020

درسی سوالات جماعت نہم | فراق گورکھپوری | غلام رسول نازکی

جماعت نہم 
درسی سوالات 
فراق گورکھپوری| غلام رسول نازک

 فراق گورکھپوری

فراق گورکھپوری

فراقؔ گورکھپوری کا اصل نام رگھو پتی سہائے تھا  اور تخلص فراقؔ تھا۔ آپ 28 اگست 1896 ء کو گورکھپور کے بانس گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام گورکھ پرسادعبرتؔ تھا جوایک نامور  وکیل اور  ایک اچھے شاعر تھے ۔فراقؔ نے اردو فارسی کی ابتدائی تعلیم گھر پر حاصل کی ۔ اسکے بعد ایف اے کے لئے آلہ آباد چلے گئے ۔1918ء میں سول سروسز کا امتحان پاس کیا مگرملازمت نہیں کی ۔اسکے بعد وطن کی جدوجہد میں لگ گئے اور جیل کی صعوبتیں برداشت کیں ۔1930 میں آگرہ یونیورسٹی سے انگریزی مضمون میں ایم اے کیا اورآلہ آباد یونیورسٹی میں معلم مقرر ہوئے۔فراق گورکھپوری اردو اور انگریزی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے۔1958ء میں وظیفہ پر سبکدوش ہوئے ۔ وہ اردو کے ان شاعروں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے بیسویں صدی میں اردو غزل کو ایک نیا رنگ اور آہنگ عطا کیا۔ان کے متعدد شاعری مجموعے شائع ہوئے جن میں روح کائنات، شبستان، رمز و کنایات، غزلستان، روپ، شعلئہ ساز، پچھلی رات،مشعل اور گل نغمہ وغیرہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔ حکومت ہند نے انہیں پدم بھوشن اور گیان پیٹھ کے اعزازات عطا کیے تھے۔3 مارچ 1982ء کوطویل علالت کے بعد فراق گورکھپوری کاانتقال ہو گیا۔

جماعت نہم 
درسی سوالات 
فراق گورکھپوری| غلام رسول نازکی


سوال نمبر 4:-لذت رسوائی اور رسوائی محبت کی وضاحت کیجئے۔
جواب ۔ لذت رسوائی سے مراد محبوب کے عشق میں جو رسوائی ملے اس میں لذت محسوس ہونا۔
رسوائے محبت سے مراد محبت میں رسوا ہونا یعنی معشوق جب عاشق کی محبت کی قدر نہیں کرتا تو عاشق بدنامی اور رسوائی کا شکار ہو جاتا  ہے
غلام رسول نازکی

MIR GHYLAM RASOOL NAZKI
غلام رسول نازکی
میر غلام رسول نازکی براوز بدھ  ۱۶ مارچ ۱۹۱۰ ء( ۴ ربیع الاول۱۳۲۸)  میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام غلام مصطفیٰ نازکی تھا ۔  انہوں نے ۱۹۱۱ ء میں سرینگر سے ہجرت کرکے بانڈی پور وٹلب میں مستقل سکونت اختیار کی ۔ غلام رسول نازکی نے اپنا بچپن وہی گزارا۔ ابتدائی تعلیم اپنے والد صاحب سے حاصل کی جو عربی اور فارسی کے جید علم تھے ۔ جماعت ہشتم پاس کرنے کے بعد آپ مزید تعلیم کے لئے سرینگر آئے اور اسلامیہ ہائی اسکول سے مڈل پاس کیا ۔ اسکے بعد پنجاب یونیورسٹی سے منشی پاس کیا ۔ اسی اثنا میں آپ کے والد داعی اجل کو لبک کہہ گئے اور آپ باپ کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ والد کے انتقال کے بعد آمدنی کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اسلئے آپ کو ہندواڑہ میں بحیثیت مدرس ملازمت کرنی پڑی۔ دوران ملازمت انہوں نے منشی علم،میٹرک،منشی فاضل،ادیب فاضل اور ایف اے کے امتحانات پاس کئے ۱۹۴۳ء غلام السیدین نے نازکی صاحب کو اپنے ساتھ لٹریری اسٹنٹ بنا کر رکھا اور "تعلیم جدید" کا مدیر مقرر کیا ۔ اس رسالے سے وابستہ رہتے ہوئے نازکی صاحب نے ادبی حلقوں میں خاصی شہرت حاصل کی۔ اسکے بعد آپ کا تبادلہ بحیثیت استاد ٹیچرس ٹرینگ اسکول ہوا ۔ آپ اسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر مدارس بھی رہے۔ ۱۹۶۸ء میں نازکی صاحب ریدیو کشمیر جموں سے وابستہ ہوئے بعد میں ان کا تبادلہ ریڈیو کشمیر سرینگر ہوا یہی سے وہ ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔ ۱۶ مارچ ۱۹۹۸ کو علم و ادب کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لئے غروب ہوا ۔

میر غلام رسول نازکی کو گھر میں ایک ادبی ماحول نصیب ہوا جس وجہ سے وہ ابتدا سے ہی ادب کی نزاکتوں اور نفاستوں سے روشناس تھے ۔ "آب حیات" کے مطالعہ نے انہیں شاعری کا گرویدہ بنایا۔انہوں نے غزل کے علاوہ رباعی ،قطعہ، نعت اور نظم، میں بھی طبع آزمائی کی ۔ اردو کے ساتھ ساتھ انہوں نے کشمیر زبان میں بھی شعر کہے۔ 
آپ کا پہلا شعری مجموعہ " نزاکت ۱۹۳۵" ہے۔اسکے علاوہ دیدہ تر ۱۹۴۹ء، چراغ راہ۱۹۸۹ء،متاع فقیرشائع ہو چکے ہیں جب کہ کشمیری میں  نمرود نامہ۱۹۶۸،آواز دوست ۱۹۸۵ء کاوینہ وول۱۹۸۹ء منظر عام پر آکر قارئین اور ناقدین سے داد تحسین حا صل کر چکے ہے۔

غلام رسول نازکی غزلیات مع تشریح
غلام رسول نازکی
غلام رسول نازکی


۱۔ محبوب کے ہونٹوں پر سیلاب تبسم ہے
  یا نور کے دریا کی موجوں میں تلاطم ہے۔

تشریح: میر غلام رسول نازکی اپنے محبوب کی مسکراہٹ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہے۔ میرے محبوب کی مسکراہٹ بہت خوبصورت ہے  جب وہ مسکراتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے نور کے دریا ہیں موجیں اُٹھ رہی ہے۔

۲۔ اب خوب گزرتی   ہے انجام    خدا جانے
   ہر سانس میں نغمہ ہے ہر لے میں ترنم ہے 

تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ فی الحال زندگی بڑے احسن طریقے سے گزرتی ہے لیکن آگے کیا ہوگا اور اس زندگی کا کیا انجام ہوگا وہ خدا ہی جانتاہے ۔

۳۔  دل ڈت کے مقابل ہے آلام و مصائب سے  
   گویا کہ چٹانوں سے لہروں کا    تصادم ہے

 تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ زندگی کو بڑے مصائب سے واسطہ پڑا لیکن میرا دل چٹان کی طرح مضبوط ہے اور ان آلام کا مقابلہ کرتا ہے ۔ گویا جس طرح چٹان سمندر میں لہروں کا ڈٹ کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح میرا دل بھی مصیبتوں کا مقابلہ کررہا ہے 

۴۔  دنیا ئے محبت کی ہر چیز نرالی ہے 
    خاموش اشاروں پر منیاد تکلم ہے 

 تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ محبت کی دنیا ایک منفرد دنیا ہوتی ہے اسکیبہر چیز نرالی ہوتی۔ یہاں اشاروں میں بتائی کہی ہوئی  بات بھی سمجھی جاتی ہے 

۵ جنت ارضی   میں آرام   نہیں    ملتا 
   پھر خلد بریں کیا واعظ کا توہم ہے

تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ 
جب انسان کو اس جنت بے نظیر (کشمیر) میں آرام نہیں ملے تو پھر جنت بریں میں کہا ملے گا یہ تو صرف واعظ کا وہم ہے ۔

غزل ۲

۱۔ اس شوخ کو کیا دیکھا آنکھوں میں سمنٹ آئی
   شیراز   کی     شادابی      کشمیر   کی   رعنائی 

تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ میرا محبوب بہت خوبصورت ہے جب میں اس کو دیکھا تو ایسا لگا کہ جیسے میری آنکھوں نے شیراز (ایران کا ایک شہر) اور کشمیر کی خوبصورتی کا دیدار کیا۔

۲۔ رہ رہ کے میرے دل میں ایک درد سا اٹھتا ہے 
   آ  اپنیے    لبوں  سے   دے   پیغام    مسیحائی

تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ جب سے میرے دل میں تمہارا عشق پیدا ہوگیا،  تب سے میرا دل میں ایسادرد پیدا ہونے لگا ہے جس کا اعلاج صرف تمہارے پاس ہے اسلئے اب مسیحا بن کر  آجا اور میرے درد کو دور کر۔

۳۔ ہر شئے  کی حضوری میں جھکوا دیا سر میرا 
    ائے ذوق   جبیں    سائی !  اے لذت   رسوائی

تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی اپنے ماتھا رگڑ نے وا لے شوق اور رسوائی کی لذت سے مخاطب ہو کہتا ہے کہ ان ہی چیزوں نے مجھے ہر جگہ سر جھکوانے پر مجبور کیا گویا میں جو ہر جگہ اپنا سر جھکاتا ہے اور ہر کسی کے سامنے ماتھا رگڑھتا ہوں اس کی وجہ رسوائی میں آنے والا مزہ ہے۔

۴۔  شرمندہ    الفت ہوں   رسوائے محبت ہوں
    دامن میں چھپا مجھ کو ائے گوشہ تنہائی

تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ میں محبت کا رشتہ نبانے میں ناکام ہو چکا ہوں اور محبت میں پوری طرح سے رسوا ہو چا ہوں اسلئے ائے تنہائی مجھے اپنے دامن میں چھپاتاکہ دنیا کی نظروں سے میرا سامنا نہ ہو۔

۵۔  سوکھا ہوا سبزہ ہوں گلزار محبت کا 
     کب سایہ فگن ہوگا  وہ سرو دلارائی

تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں  کہ میں محبت کی تپش برداشت نہ کر سکا اسلئے مرجھا چکا ہوں اب میرے محبوب مجھ پر اپنا سایہ کر دے تاکہ میں پھر سے تر و تارہ ہو جاؤں کیونکہ میر شاداب ہونا تمہارے سایے میں ہی ممکن ہے۔


No comments:

Post a Comment