غلام رسول نازکی غزلیات مع تشریح
|
غلام رسول نازکی |
۱۔ محبوب کے ہونٹوں پر سیلاب تبسم ہے
یا نور کے دریا کی موجوں میں تلاطم ہے۔
تشریح: میر غلام رسول نازکی اپنے محبوب کی مسکراہٹ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہے۔ میرے محبوب کی مسکراہٹ بہت خوبصورت ہے جب وہ مسکراتا ہے تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے نور کے دریا ہیں موجیں اُٹھ رہی ہے۔
۲۔ اب خوب گزرتی ہے انجام خدا جانے
ہر سانس میں نغمہ ہے ہر لے میں ترنم ہے
تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ فی الحال زندگی بڑے احسن طریقے سے گزرتی ہے لیکن آگے کیا ہوگا اور اس زندگی کا کیا انجام ہوگا وہ خدا ہی جانتاہے ۔
۳۔ دل ڈت کے مقابل ہے آلام و مصائب سے
گویا کہ چٹانوں سے لہروں کا تصادم ہے
تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ زندگی کو بڑے مصائب سے واسطہ پڑا لیکن میرا دل چٹان کی طرح مضبوط ہے اور ان آلام کا مقابلہ کرتا ہے ۔ گویا جس طرح چٹان سمندر میں لہروں کا ڈٹ کا مقابلہ کرتا ہے اسی طرح میرا دل بھی مصیبتوں کا مقابلہ کررہا ہے
۴۔ دنیا ئے محبت کی ہر چیز نرالی ہے
خاموش اشاروں پر منیاد تکلم ہے
تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ محبت کی دنیا ایک منفرد دنیا ہوتی ہے اسکیبہر چیز نرالی ہوتی۔ یہاں اشاروں میں بتائی کہی ہوئی بات بھی سمجھی جاتی ہے
۵ جنت ارضی میں آرام نہیں ملتا
پھر خلد بریں کیا واعظ کا توہم ہے
تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ
جب انسان کو اس جنت بے نظیر (کشمیر) میں آرام نہیں ملے تو پھر جنت بریں میں کہا ملے گا یہ تو صرف واعظ کا وہم ہے ۔
غزل ۲
۱۔ اس شوخ کو کیا دیکھا آنکھوں میں سمنٹ آئی
شیراز کی شادابی کشمیر کی رعنائی
تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ میرا محبوب بہت خوبصورت ہے جب میں اس کو دیکھا تو ایسا لگا کہ جیسے میری آنکھوں نے شیراز (ایران کا ایک شہر) اور کشمیر کی خوبصورتی کا دیدار کیا۔
۲۔ رہ رہ کے میرے دل میں ایک درد سا اٹھتا ہے
آ اپنیے لبوں سے دے پیغام مسیحائی
تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں کہ جب سے میرے دل میں تمہارا عشق پیدا ہوگیا، تب سے میرا دل میں ایسادرد پیدا ہونے لگا ہے جس کا اعلاج صرف تمہارے پاس ہے اسلئے اب مسیحا بن کر آجا اور میرے درد کو دور کر۔
۳۔ ہر شئے کی حضوری میں جھکوا دیا سر میرا
ائے ذوق جبیں سائی ! اے لذت رسوائی
تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی اپنے ماتھا رگڑ نے وا لے شوق اور رسوائی کی لذت سے مخاطب ہو کہتا ہے کہ ان ہی چیزوں نے مجھے ہر جگہ سر جھکوانے پر مجبور کیا گویا میں جو ہر جگہ اپنا سر جھکاتا ہے اور ہر کسی کے سامنے ماتھا رگڑھتا ہوں اس کی وجہ رسوائی میں آنے والا مزہ ہے۔
۴۔ شرمندہ الفت ہوں رسوائے محبت ہوں
دامن میں چھپا مجھ کو ائے گوشہ تنہائی
تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ میں محبت کا رشتہ نبانے میں ناکام ہو چکا ہوں اور محبت میں پوری طرح سے رسوا ہو چا ہوں اسلئے ائے تنہائی مجھے اپنے دامن میں چھپاتاکہ دنیا کی نظروں سے میرا سامنا نہ ہو۔
۵۔ سوکھا ہوا سبزہ ہوں گلزار محبت کا
کب سایہ فگن ہوگا وہ سرو دلارائی
تشریح:اس شعر میں غلام رسول نازکی فرماتے ہیں کہ میں محبت کی تپش برداشت نہ کر سکا اسلئے مرجھا چکا ہوں اب میرے محبوب مجھ پر اپنا سایہ کر دے تاکہ میں پھر سے تر و تارہ ہو جاؤں کیونکہ میر شاداب ہونا تمہارے سایے میں ہی ممکن ہے۔
No comments:
Post a Comment