تازہ ترین

Wednesday, April 8, 2020

محمد رفیع سودا قصیدہ شہر آشوب مع تشریح ||درسی سوالات


قصیدہ شہر  آشوب
قصیدہ
شہر آشوب قصیدہ محمد رفیع سودا 

    اب سامنے میرے جو کوئی پیر و جواں      
       دعوی نہ کرے منہ میں زبان ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ میں نے ہر کسی کی قوت گویائی دیکھی ہیں اس لئے میرے سامنے اب کوئی اپنی قوت دیکھانے کے لائق نہیں رہاہے کہ اس کے منھ میں زبان ہے ۔اب جو کچھ کہنا ہے وہ میں ہی کہہ دو گا کیوں کہ دوسروں میں زبان نہیں ہے۔
 میں حضرت سودا کو سنا بولتے دیکھا      
      اللہ رے  کیا نظم بیان ہے ۔
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ میں نے اپنے اندر کے شاعر کو بولتے ہوے سناجو کہتا ہے کہ تمہاری نظم کا انداز بیان کتنا دلکش اور نرالا  ہے۔
   اتنا میں کیا عرض  کہ فرمائے حضرت       
   آرام سے کٹنے کی طرح کوئی بھی یہاں نہیں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ میں نے اپنے اندر کے شاعر سے صرف اتنا پہنچا کہ کیا کوئی فرد ایسا ہے جو اس دلی میں مسرت اور اطمینان سے زندگی گزار رہا ہے ۔
   سن کر ےہ کہنے کہ خاموش ہی رہ جا          
  اس امر میں قاصر تو فرشتے کی زبان ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ  میرا سوال سن کر میر اندر کا شاعر کہنے لگا بس سودا چب رہ جاان کا تو خدا ہی حافظ ہے ۔یہ لوگ کس طرح زندگی کا سفر جاری  رکھے ہوئے ہے یہ فرشتے بھی بیان نہیں کر پائیں گے
   کیا کیا میں بتاؤ ں کہ زمانے میں کئی مشکل      
     ہے وجہ معاش اپنی سو جس کا یہ بیان ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ  یہاں لوگوں کے ذریعہ معاش الگ الگ ہے ۔یہ لوگ کس کس طرح اپنا روزگار کماتے ہیں ۔اس کی کہانی آرام سے سنو۔
 گھوڑا لے اگر نوکری کرتے ہیں کسو کی       
    تنخوا ہ کا پھر عالم بالا پہ مکاں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ جب کوئی کسی کے ہاں اپنا گھوڑا لے  کر نوکری کرتا ہے اور اپنی روزی کمانا چاہتا ہےتو اس کو کام کرنے کے بعد اس کے مالک کی طرف سے وقت پر تنخواہ نہیں ملتی  کیوںکہ وہ مالک خود خستہ ہوتا ہے وہ خو دکم امدنی کا شکار ہوتا ہے ۔اسلئے تنخواہ نہیں دے پاتا ہے۔
7.۔   گزر ے ہے سدایوں علف و دانہ کی خاطر
      شمشیر جو گھر میں تو شپر بنیے کے ہاں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ ا سکی تمام عمر  گھوڑے کے چارے  کا انتظام کرنے میں گزرتی ہیں یعنی جو بنیادی ضروریات ہیں ان کو پوری کرنے میں ہی زندگی گزر جاتی ہیں۔  جو کمائی ہوتی ہے اس سے زیادہ ادھار چکانا پڑتا ہے
۸۔ سودا گری کیجئے تو ہے اس میں یہ مشقت         
       دکھن میں پکے وہ خرید صفہاں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ تجارت کرنے کا بھی کوئی آسان راستہ نہین ہیں  کیوں کہ اس میں بھی بہت محنت لگتی ہے ایران سےمال سےلانا پڑتا ہے اور دکن میں فروخت کرنا پڑتا ہے
8۔ شاعر جو سنے جاتے ہیں مستعفی الاحوال          
    دیکھیے جو کوئی فکر و تردد کو تویاں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ جو لوگ (شعرا)دنیا کے حالت سے بے پرواہ اور بے نیاز سمجھے جاتے ہیں اب ان حالات سے وہ بھی پریشان نظر آتے ہیں ۔
   مشاق ملا قات انھوں کا کس و ناکس         
     ملنا انھیں ان سے فلاں ابن فلاں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ ان شعرا ء سے ملاقات کرنے کے لئے بے تاب ہوتے تھے اور شاعروں کو یہ پریشانی رہتی تھی کہ ان کو فلاں کے فلاںبیٹے سے ملنا ہے
10۔  گر عید کا مسجد میں پڑھیں جا کے دو گانہ    
         نیت قطعہ تہنیت خان ذماں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ آج حال یہ کہ شعراء  کو ہی امیروں کے دروازے کھٹکھٹا نے پڑتے ہیں۔ اگر عید کی نماز بھی پڑھنے جاتے ہے وہاں بھی یہی سوچتے ہے کہ کس صاحب ثروت کا قطعہ لکھو تاکہ کچھ رقم مل جائے۔
11۔ملائی اگر کیجئے تو ملا کی ہے یہ قدر
ہو دو روپے آس کے جو کوئی مثنوی خواں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ ملا کا بھی شعرا ء جیسا حال ہے ہاں اگر وہ مثنوی کے چند اشعار پڑھیں تو دایک دو روپے مل سکتے ہیں ۔
12۔ اور ما خضر اخوند کا اب کیا میں بتاؤں        
     یک کاسئہ دال عدس وجو کی دوناں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ میں کیا بتاوں  ملا کا حال دن بھر بچوں کو  پڑھانے کے بعد ان کے دستر خوان پر صرف دال اور جو کی روٹی وہوتی ہے ۔
13دن بھر وہ پڑھائے  کرے لڑکے       
    شب خرچ لکھے گھر کا اگر ہندسہ ڈاں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ دن بھر وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں اور رات بھر وہ اپنے  گھر کے اخراجات کا حساب لگاتے ہیں اس طرح اس کی زندگی بھی پریشانی میں ہی گزرتی ہیں۔
14۔اب کیجیے انصاف کہ جس کی ہو یہ اوقات
آرام جو چاہے وہ کرے وقت کہاں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اگر وہ آرا م کرنا بھی چاہے تو ان حالات میں کہا ں کر پائیں گے ۔
15۔  چاہے جو شیخ بنے بہر فراغت      
  چھٹتے ہی تو شعرا کا وہ مطعون زبان ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اس حالت میں اگر وہ پیر و مرشد اور صوفی بزرگ بنا چاہے تو اس پر فوراً شعرا ء طنز کرنےبیٹھےگے
16۔   تحقیق ہو ا عرس تو کر داڑھی کنگھی            
       لے خیل مریدں گئے وہ بزم جہاں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ جب شیخ کو معلوم ہوتا ہے کہ فلاں جگہ عرس ہے تو جلد سج دھج کر اپنے مریدوں کے ساتھ وہاں پہنچ جاتا ہے
17۔ ڈھولک جو لگی بجنے تو واں سب کو ہوا وجد     
       کوئی کودے کوئی رو دے کوئی نعرہ زبان ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہپھر وہاں جب ڈھولک بجتی ہے تو سب پر جنونی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کوئی پھرکودتا ہے کوئی پھر رو پڑتا ہے ، کوئی نعرہ دیتا ہے
18۔  بے تال ہو ئے شیخ جو ٹک وجد میٰن آکر      
     سر گوشیوں مٰیں پھر بد اصولی کا بیاں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ پھر جب پیر بھی وجد میں آتا ہے تو  اصول وجد توڑ دیتا ہےپھر لوگ ایک دوسرے سے سر گوشی کرنے لگتے ہیں کہ اس نے مستی میں آکر وجد کے اصول توڑے ہیں۔
19آرام سے کٹنے کا سنا تو نے کچھ اصول    
     جمعیت خاطر کوئی صورت ہو کہا ں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ یہاں کوئی آرام سے زندگی گزار سکیں اسکی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے
20۔      دنیا مین آسودگی فقط رکھتی ہے نام     
     عقبٰی میں یہ کہتا تھا کوئی اس کا نشان ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ دنیا میں آسودگی ا ور اطمنان  اور سکون    کبھی حاصل نہیں ہو پاتاہے ۔  البتہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آخرت میں اطمنان وسکون ملے  ہوگا
21۔  سو اس پہ تیقن کسی کے دل کو نہیں ہے   
        یہ بات بھی گویندہ ہی کا محض گمان ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہلوگ کہتے ہیں کہ وہاں سکون ہوگا اور اطمنان ہوگا مگر مجھے لگتا ہے کہ شائد یہ ان کا وہم اور گمان ہے کیونکہ اگر یہاں اطمنان نہ مل سکا تو پھر وہا ں بھی نہیں مل پائے گا۔
21۔  یہاں فکر معیشت ہے تو وہاں دغدغہ حشر   
      آسودگی حرفیست نہ یاں ہے نہ واں ہے
تشریح :-مرزا محمد رفیع سوداؔ قصیدہ شہر آشوب کے اس شعر میں فرماتے ہیں  کہیہاں اگر فکر روزگار ہے توہ وہاں دوزخ سے بچنے کی فکر ہوگی ۔اسطرح انسان کو کبھی آسودگی اور اطمنان نہیں مل سکتا ہے وہ ہمیشہ بے سکون ہی رہتا ہے۔
          
س:       شہر آشوب سے کیا مراد ہے
جواب:   ایسی نظم جس میں زمانہ بدل جانے ،لوگوں کے اخلاق و عادات بگڑ جانے، معاملات کے درہم برہم ہوجانے ،شرفا کی خوداری اور زلیلوں کی گرم بازاری اور کسی شہر کی بربادی ، اور تباہ کاری کا ذکر ہو اس سے شہر آشوب کہتے ہیں ۔ اس صنف کی پہچان اس کے مخصوص موضوع سے ہوتی ہیں ۔اس صنف کو غزلیہ ،شہر آشوب ، مسدس ،مخمس ،مثمن ،وغیرہ ہیتوں میں لکھا جاتا ہے۔
س:۔     اس قصیدے کو شہر آشوب کیو ں کہا جاتا ہے
ج:-      اس قصیدے میں احمد شاہ ابدالی کے حملے کی وجہ ہونے والی دلی کی بربادی و  ویرانی کا ذکر موجود ہےاور مختلف پیشوں سے وابستہ لوگوں کی مفلسی لاچاری کا خاکہ پیش کیاگیا ہے  ،  اسلئے اس قصیدے کو شہر آشوب کہا جاتا ہے  ۔
س:- اس قصیدہ کا خلاصہ تحریر کیجئے:
خلاصہ:-مرزا محمد رفیع سوداؔ نےاپنےقصیدےشہر آشوب میں دلی کی تباہ حالی کی داستان پیش کی ہے اور بڑا مؤثر انداز بیاں اپنایا ہے ۔حالیؔ اس قصیدے میں فرماتے ہیں کہ میں نے ہر کسی کی قوت گویائی دیکھی ہیں اس لئے میرے سامنے اب کوئی اپنی قوت دیکھانے کے لائق نہیں رہاہے کہ اس کے منھ میں زبان ہے ۔اب جو کچھ کہنا ہے وہ میں ہی کہہ دو گا کیوں کہ دوسروں میں زبان نہیں ہے۔آگےشاعرفرماتےہیں کہ میں نے اپنے اندر کے شاعر کو بولتے ہوے سناجو کہتا ہے کہ تمہاری نظم کا انداز بیان کتنا دلکش اور نرالا  ہے۔پھرمیں نے اپنے اندر کے شاعر سے صرف اتنا پہنچا کہ کیا کوئی فرد ایسا ہے جو اس دلی میں مسرت اور اطمینان سے زندگی گزار رہا ہے ۔میرا سوال سن کر وہ کہنے لگا بس سودا چب رہ جاان کا تو خدا ہی حافظ ہے ۔ہےلوگ کس طرح زندگی کا سفر جاری  رکھے ہوئے ہے یہ فرشتے بھی بیان نہیں کر پائیں گےیہاں لوگوں کے ذریعہ معاش الگ الگ ہے ۔یہ لوگ کس کس طرح اپنا روزگار کماتے ہیں ۔اس کی کہانی آرام سے سنو۔کہ جب کوئی کسی کے ہاں اپنا گھوڑا لے  کر نوکری کرتا ہے اور اپنی روزی روٹی کمانا چاہتا ہےتو اس کو کام کرنے کے بعد اس کے مالک کی طرف سے وقت پر تنخواہ نہیں ملتی  کیوںکہ وہ مالک خود خستہ ہوتا ہے وہ خو دکم امدنی کا شکار ہوتا ہے ۔اسلئے تنخواہ نہیں دے پاتا ہے۔تمام عمر  گھوڑے کے چارے  کا انتظام کرنے میں گزرتی ہیں یعنی جو بنیادی ضروریات ہیں ان کو پورا کرنے میں ہی زندگی گزر جاتی ہیں۔  جو کمائی ہوتی ہے اس سے زیادہ ادھار چکانا پڑتا ہے تجارت کرنے کا بھی کوئی آسان راستہ نہین ہیں  کیوں کہ اس میں بھی بہت محنت لگتی ہے ایران سے مال لانا پڑتا ہے  اور دکن میں فروخت کرنا پڑتا ہے جو لوگ (شعرا)دنیا کے حالت سے بے پرواہ اور بے نیاز سمجھے جاتے ہیں اب ان حالات سے وہ بھی پریشان نظر آتے ہیں ۔ایک زمانہ وہ بھی تھا جب لوگ ان شعرا ء سے ملاقات کرنے کے لئے بے تاب ہوتے تھے اور شاعروں کو یہ پریشانی رہتی تھی کہ ان کو فلاں کے فلاںبیٹے سے ملنا ہےآج حال یہ کہ شعراء  کو ہی امیروں کے دروازے کھٹکھٹا نے پڑتے ہے،اگر عید کی نماز بھی پڑھنے جاتے ہے وہاں بھی یہی سوچتے ہے کہ کس صاحب ثروت کا قطعہ لکھو ں تاکہ کچھ رقم مل جائے۔ملا کا بھی شعرا ء جیسا حال ہے ہاں اگر وہ مثنوی کے چند اشعار پڑھیں تو ایک دو روپے مل سکتے ہیں ۔میں کیا بتاوں  ملا کا حال دن بھر بچوں کو  پڑھانے کے بعد ان کے دستر خوان پر صرف دال اور جو کی روٹی ہوتی ہے ۔دن بھر وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں اور رات بھر وہ اپنے  گھر کے اخراجات کا حساب لگاتا ہے ۔اس طرح اس کی زندگی بھی پریشانی میں ہی گزرتی ہیں۔اگر وہ آرا م کرنا بھی چاہے تو ان حالات میں کہا ں کر سکے گا ۔اس حالت میں اگر وہ پیر و مرشد اور صوفی بزرگ بنا چاہے تو اس پر فوراً شعرا ء طنز کرنے بیٹھےگے ۔جب شیخ کو معلوم ہوتا ہے کہ دٖفلاں  جگہ عرس ہے تو جلد سج دھج کر اپنے مریدوں کے ساتھ وہاں پہنچ جاتا ہے ۔پھر وہاں جب ڈھولک بجتی ہے تو سب پر جنونی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کوئی پھرکودتا ہے کوئی پھر رو پڑتا ہے ، کوئی نعرہ دیتا ہے ۔پھر جب پیر بھی وجد میں آتا ہے تو  اصول وجد توڑ دیتا ہے تو لوگ ایک دوسرے سے سر گوشی کرنے لگتے ہیں کہ اس نے مستی میں آکر وجد کے اصول توڑے ہیں۔
شاعر مزید فرماتے ہیں کہ یہاں کوئی آرام سے زندگی گزار سکیں اسی کوئی صورت نظر نہیں آتی ہے دنیا میں آسودگی اور اطمنان  اور سکون    کبھی حاصل نہیں ہو پاتاہے ۔  البتہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ آخرت میں اطمنان وسکون ملے  ہوگا    ۔ مگر مجھے نہیں لگتا ہے ۔ شائد یہ ان کا وہم اور گمان ہے کیونکہ اگر یہاں اطمنان نہ مل سکا تو پھر وہا ں بھی نہیں مل پائے گا۔یہاں اگریہاں فکر روزگار ہے توہ وہاں دوزخ سے بچنے کی فکر ہوگی ۔اسطرح انسان کو کبھی آسودگی اور اطمنان نہیں مل سکتا ہے وہ ہمیشہ بے سکون ہی رہتا ہے۔

سوالات

س1:-   سودا ؔ نے اس قصیدے جن پیشوں کا ذکر کیا ہے ان کی فہرست بنائے

ج:۔      سوداگری ،شاعری،مثنوی خوانی ،معلمی ، درویشی بطورپیشہ ،سپاہی، ملائی۔وغیرہ پیشوں کا ذکر کیا ہے

س2۔    اس نظم میں بہت سے الفاظ ایسے ہیں جن کے معنی اب بدل گئے ہیں یا جو اب استعمال نہیں ہوتے "مثلاً تحقیق ہوا" بہ معنی "معلوم ہوا " ایسے ہی کچھ الفاظ آپ بھی ڈنڈے؟

ج:        کسو ،انہوں کا ، واں ،چھٹتے ،یاں


6 comments:

  1. مرزا محمد رفیع سودا نظم قصیدہ شھر آشوب مکمل ترجمہ

    ReplyDelete
    Replies
    1. مکمل تشریح شہر آشوب کی مل سکتی ہے

      Delete
  2. Bahut bahut shukriya
    Kya mujhe انتخابات البیان میر حسین کی تشریح مل سکتی ہے

    ReplyDelete
  3. No Deposit Bonus Code at Grades Casino
    The online casino offers 100 free spins without 바카라 사이트 deposit for no wagering requirements. This https://febcasino.com/review/merit-casino/ bonus septcasino is apr casino one of the nov카지노 사이트 most popular and most well-known

    ReplyDelete
  4. مکمل تشریح ہوا جب کفر ثابت میرزا سودا کی میلسکتی ہے کیا

    ReplyDelete