اولوالعزمی
اولوالعزمی |
1۔ ہے
سامنے کھلا ہو میدا ں چلے چلو
باغ
مراد ہے ثمر افشاں چلے چلو
دریا ہو بیچ میں کہ پیاباں
چلے چلو
ہمت یہ کہہ
رہی ہے کھڑی ہاں چلے چلو
چلنا
ہی مصلحت ہے مری جاں چلے چلو
تشریح :-محمد حسین آزاد ؔ اولوالعزمی نظم کے اس
بند میں نوجوانوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ تمہارے سامنے تمہارے مستقبل کا روشن
میدان کھلا ہےاور اس میدان کے باغ میں آپ کی امیدیوں کے میٹھے پھل تمہاراانتظار کر
رہے ہیں ۔بس تمہیں ہمت اور استقلال سے کام لیتے ہو ئےآگے بڑھنا ہے
کئی رکاوٹیں آپ کے راہ میںکھڑی ہوجائیں گے مگر آپ کو اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔
2۔ ہمت
کے شہسوار جو گھوڑے اڑائیں گے
دشمن
فلک بھی ہوں گے تو سر جھکائیں گے
طوفان
بلبلوں کی طرح بیٹھ جائیں گے
نیکی کے روراُٹھ کے بدی کو
دبائیں گے
بیٹھونہ
تم مگر کسی عنوان چلے چلو
تشریح :-محمد حسین آزاد ؔ اولوالعزمی نظم کے اس
بند میں فرماتے ہیں کہ ہمت اور حوصلے سے کام لو کیوں کہ ہمت آپ کی وہ طاقت ہے جس
سے تمہارابڑا سے بڑا دشمن بھی ناکام ہو
جائے گا ۔آپ کی ہمت آپ کی راہ میں آنے والی ہر
رکاوٹ کو پانی کے بلبلے کی طرح ختم کرئے گی ۔آپ کی نیکیاں برائیوں کو دبا
دئیں گے ۔بس آپ کو کسی نہ کسی صورت میں اپنے روشن مستقبل کی طرف رواں دواں رہنا ہے
۔
3۔ رکھو
رفاہِ قوم پہ اپنا مدار تم
اور
ہو کھبی صلے کے نہ امیدوار تم
عزت
خدا جو دیوے پھر کیو ں ہو خوار تم
دو رخ کو آب فخر سے رنگ بہار تم
گلشن میں ہو کے باد بہاراں چلے چلو
تشریح :-محمد حسین آزاد ؔ اولوالعزمی نظم کے اس
بند میں فرماتے ہیں کہتم اپنی قوم کی فلاح و بہبودی کے لئے کام کرتے رہو اور اس سے
اپنی زندگی کا مقصد بنا لو ،اور کسی سے بدلے کے تمنا نہ کرو بلکہ اپنا فرض جان کر
قوم کے لئے کام کرو ۔خدا تمہیں نیک بدلہ ضرور دے گا خدا تمہیں عزت و رفعت سے نوازے
گا آپ کی زندگی کو بہار کی طرح چمکائے گا ،تم دنیاکے اس باغ میں بہار کی ہوا کی
طرح رواں دواں رہو۔
4۔ آہ
سفید و سیاہ کا فعل حساب ہے
چمکا
یا چہرہ صبح نے با آب و تاب
ظلمت
پہ نور ہونے لگا فتح یاب ہے
اور شب کے پچھے تیغ بہ کیف
آفتاب ہے
تم
بھی ہو آفتاب درخشان چلے چلو
تشریح :-محمد حسین آزاد ؔ اولوالعزمی نظم کے اس
بند میں فرماتے ہیں کہآپ دنیا میں جو بھی کام کرو گے اس کا حساب دینا ہو گا ۔آپ کو
ظلمت کا خاتمہ کرنا ہے جس طرح آفتاب رات کے ظلمت کا خاتمہ کرتا ہے اور اپنے نور
سے دنیا کو چمکاتا ہے اس طر ح آپ کو بھی
آفتاب کی طرح دنیا کو چمکانا ہے۔
5۔ نیکی
بدی کے دیر سے باہم تھے
اب
خاتموں پہ آگئے ہیں ان کے فیصلے
قسمت
کے یہ نوشے نہیں جو نہ مٹ سکے
وہ گونجا
طبل فتح کہ میدان کے لئے
کرنا
ئے جنگ کی ہے یہ الحال چل چلو
تشریح :-محمد حسین آزاد ؔ اولوالعزمی نظم کے اس
بند میں فرماتے ہیں کہ مدت سے بدی اور نیکی میں جنگ چل رہی ہیں ۔اور اب بدی کا
خاتمہ طے ہیں ۔یہ کوئی ایسی لکیر نہیں ہے جو ازل میں لکھی ہوئی ہو ۔اب نیکی کے فتح
کا طبلہ بچ رہا ہے تم صرف آگے بڑھتے رہو فتح تمہاری مقدر ہیں۔
س:۔ اس نظم کا موضوع کیا ہے؟
ج: اس
نظم کا موضوع الوالعزمی ہےیعنی اعلی ہمتی ، سےاعلیٰ مرتبہ حاصل کرنے کے لئے اپنی
سعی و کاوش کو جاری رکھنا ہے۔
س:- اس
نظم کا خلاصہ لکھئے:
جواب: خلاصہ :- محمد حسین آزاد ؔ اولوالعزمی نظم کے میں
نوجوانوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں کہ تمہارے سامنے تمہارے مستقبل کا روشن میدان
کھلا ہےاور اس میدان کے باغ میں آپ کی
امیدیوں کے میٹھے پھل تمہارا انتظار کر رہے ہیں ۔بس تمہیں ہمت اور استقلال سے کام
لیتے ہو ئےآگے بڑھنا ہے کئی رکاوٹیں آپ کے راہ میں کھڑی ہوجائیں گے مگر آپ کو اپنا سفر جاری رکھنا ہے۔ہمت اور
حوصلے سے کام لو کیوں کہ ہمت آپ کی وہ طاقت ہے جس سے تمہارابڑا سے بڑا دشمن بھی ناکام ہو جائے گا ۔آپ کی ہمت آپ کی
راہ میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پانی کے
بلبلے کی طرح ختم کردئے گی ۔آپ کی نیکیاں برائیوں کو دبا دئیں گے ۔بس آپ کو کسی نہ
کسی صورت میں اپنے روشن مستقبل کی طرف رواں دواں رہنا ہے ۔تم اپنی قوم کی فلاح و بہبودی کے لئے
کام کرتے رہو اور اس کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لو ،اور کسی سے بدلے کے کی تمنا نہ
کرو بلکہ اپنا فرض جان کر قوم کے لئے کام کرو ۔خدا تمہیں نیک بدلہ ضرور دے گا خدا
تمہیں عزت و رفعت سے نوازے گا آپ کی زندگی کو بہار کی طرح چمکائے گا ، ۔آپ دنیا
میں جو بھی کام کرو گے اس کا حساب دینا ہو گا ۔اس لئے خلوص سے اپنے فرض کو انجام
دو۔آپ کو ظلمت کا خاتمہ کرنا ہے جس طرح آفتاب رات کے ظلمت کا خاتمہ کرتا ہے اور
اپنے نور سے دنیا کو چمکاتا ہے اس طر ح آپ
کو بھی آفتاب کی طرح دنیا کو چمکانا ہے۔مدت سے بدی اور نیکی میں جنگ چل رہی ہیں
۔اور اب بدی کا خاتمہ طے ہیں ۔یہ کوئی ایسی لکیر نہیں ہے جو ازل میں لکھی ہوئی ہو
۔اب نیکی کے فتح کا طبلہ بچ رہا ہے تم صرف آگے بڑھتے رہو فتح تمہاری مقدر ہیں۔
No comments:
Post a Comment