![]() |
فیض احمد فیض |
فیض احمد فیض
فیض احمد فیض کا اصل نام فیض احمد خان تھا۔والد کا نام صاحبزادہ خان تھا۔والدہ کا نام فاطمہ تھا۔ آپ کے والد پیشیے سے ایک وکیل تھے۔ فیضؔ کی تاریخ پیدائش کے بارے میں متضاد آرا ہے ۔ اسکول کے کاغذات میں 7جنوری1911ء اور کہیں ۷ جنوری ۱۹۱۲ ء ہے جبکہ بلدیہ ریکارڑ سیالکوٹ میںن۱۳ فروری درج ہے ۔فیض احمد فیض ضلع سیالکوٹ کے ایک قصبہ " قصبہ قادر" میں پیدا ہوئے چار سال کی عمر میں اپنی تعلم کا آغاز قران پاک کی تعلیم سے کیا مگر آنکھوں کی بیماری کی وجہ سے پورا قرآن شریف حفظ نہیں کر پائے صرف ۳ پارے ہی حفظ کر پائے۔ اسکے بعد ابراہیم سیالکوٹی کے مکتب میں داخل ہوئے جہاں عربی فارسی کی تعلیم پائی۔ ۱۹۲۱ ء میں مشن اسکول میں داخلہ کیا جہاں انھوں نے میٹرک درجہ اول میں پاس کیا اسکے بعد مرے کالج آف سیالکوٹ سے انٹیر میڈیٹ بھی فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا۔ ۱۹۳۱ ء میں بی اے اور بی اے آنرز عربی میں گورنمنٹ کالج لاہور سے پاس کیا۔ اسکے بعد گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی میں ایم کیا ۱۹۳۴ء میں اورنٹل کالج لاہور سے عربی میں ایم کی فرسٹ دویژن سے پاس کیا۔ اسی سال اپنا تعلیمی سلسلہ ختم کیا اور مسلم اینگور اورنٹل کالج امرتسر میں لکچرر تعینات ہوئے ۱۹۴۰ء میں ہیلی کالج لاہور میں بحیثیت استاد اپنے فرائض انجام دینے لگے۔
فیض نے ایک انگریز خاتون مس ایلیس سے اسلامی طریقے سے شادی کی۔ شیخ عبد اللہ نے مہارجہ کشمرکے محل میں ان کا نکاح پڑھوایا۔ برات صرف دو افراد پر مشتمل تھی۔ ایک ان کا بھائی طفیل احمد اوردوسرا فیض کا دوست نعیم ۔ نکاح کے بعد فیض اور ان کی اہلیہ لاہور آئے اور ہیاں فیض کی والدہ نے ان کا نکاح دوبارہ پڑھوایا اور ان کی اہلیہ کا نام کلثوم رکھا گیا۔ کلثوم کے بطن سے فیض کو دو بیٹیاں ہوئیں ایک نام سلیمہ اور دوسری کا نام منیرہ ہیں۔
۱۹۴۲ ء کو اتالیقی امور کو خیر باد کہہ دیا اور فوج میں بحیثیت کپٹن تعینات ہوئے۔انھوں نے فوج میں رہ کر شعبہ تعلقات عامہ میں اپنے فرائض انجام دئے۔ اسکے بعد ترقی کرتے ہوئےپہلے میجر اور بعد میں کرنل کے عہدے پر فائز ہوئے۔ اسکے بعد فوج سے استعفی دے دیا اور روزنامہ پاکستان ٹائمز سے وابستہ ہو گئے۔ اسکے بعد روزنامہ "امروز " اور ہفت روزہ "لیل ونہار" کے چیف ایڈیٹر مقرر ہوئے
۱۹۵۱ء میں لیاقت علی خان کا تختہ الٹنے کی سازش (راول پنڈی سازش کیس) میں انہیں چار سال ایک ماہ گیارہ دن کی قید ہوئی فیض کی بیشتر نظمیں ان کے زمانہ اسیری کی یاد گار ہیں ۔
۲۰ اپریل ۱۹۵۵ کو قید سے رہا ہوئے ۱۹۵۸ ء میں دوبارہ سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار ہوئے اور اپریل ۱۹۵۹ کو رہائی ملی۔اسکے بعد آرٹ کونسل لاہور کے سیکٹریری مقرر ہوئے۔ ۱۹۶۲ء تک اسی ادارے میں اپنے فرائض انجام دیتے رہے اسکے بعد لندن چلے گئے ۔ ۱۹۶۴ ء ہارون کالج کے پرنسپل مقرر ہوئے ۱۹۶۸ء میں علامہ اقبال پر فلم بنائی اور ادارہ یاد گار غالب قائم کیا ۔ اسکے بعد پاکستانی قومی ادبی اکیڈیمی کے صدر مقرر ہوئے ۔ ۱۹۷۹ میں انگریزی رسالے "لوٹس" کے ایڈیٹر بنے۔
۱۹نومبر ۱۹۸۴ء کو ان پر دمے کا شدید دورہ پڑا پھر انھیں لاہور کے ماؤ ہاسپٹل میں داخل کیا گیا جہاں ۲۰ نومبر ۱۹۸۴ء بروز منگل دن میں ایک بج کر پندرہ منٹ پر ان کا انتقال ہو گیا ۔ ماڈل ٹاون قبرستان میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔
فیض کے شعری مجموعے:-
۱۔ نقش فریادی ۱۹۴۱
۲۔ دست صبا ۱۹۵۲ء
۳۔ زندان نامہ۔ ۱۹۵۶ء
۴۔ دست تہہ سنگ ۱۹۶۵
۵۔ سروادی سینا ۱۹۷۱ء
۶۔ شام شہریاراں ۱۹۷۶ء
۷۔ میرے دل میرے مسافر ۱۹۸۱
۸۔ کلام فیض۔ ۱۹۸۲
۹۔ سارے سخن ہمارے ۱۹۸۴
۱۰۔ نسخہ ہائے وفا ۱۹۸۴
نثری مجموعے:-
۱ میزبان ( تنقیدی مصامین) ۱۹۶۲
۲۔صلیبیں میرے دریچے میں (خطوط) ۱۹۷۱
۳۔ متاح لوح و قلم ۱۹۷۳
۴۔ ہماری قومی ثقافت ۱۹۷۶
۵۔ مہ و سال آشنائی ۱۹۸۰
۶۔ سفر نامہ کیوبا ۱۹۶۴