غزلیات ہمدم کاشمیری
1۔ ایسا نہیں کہ سر پر سداآسمان تھا
میرا بھی شہر میں کبھی کوئی مکان تھا
میرا بھی شہر میں کبھی کوئی مکان تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ میرا آبائی شہر ویران نہیں تھا بلکہ یہ ایک خوبصورت شہر تھا اور اس شہر میں میرا بھی ایک خوبصورت مکان تھا۔لیکن زمانے کے نامسائد حالات نے اس شہر کو اور میرے مکان کو خاکستر کر دیا اور میں بے سر وسامانی کی حالات میں آسمان تلے آگیا۔
4۔ اس روشنی کے شہر میں طلمت کرے گی راج
مجھ کو یقین تھا نہ تجھے ہی گمان تھا
مجھ کو یقین تھا نہ تجھے ہی گمان تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ ہم میں کسی کو اس کااندازہ نہ تھا کہ ایک ایسا دور بھی آئےگا جب ہر طرف اس شہر میں تاریکی ،یعنی ظلم و جبر اور بربریت ہوگی اور چار سو بے سکونی ہوگی
3۔ دھویا نہیں گیا جو کسی بر شگال میں
میری زمیں پر وہ لہو کا نشان تھا
میری زمیں پر وہ لہو کا نشان تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ میرے وطن کی سر زمین پر خون خرابی کی وجہ سے اتنے نشان لگے ہوئے ہیں جس کو وقت کی کوئی بارش یا طوفان مٹا نہیں سکی یعنی دنیا آج تک میرے وطن میں خون خرابہ ختم کرنے سے قاصر رہی۔
4۔ ہمدم کو چپ لگی ہے زمانہ گزر گیا
اس شہر خامشی میں وہ صاحب اذان تھا
اس شہر خامشی میں وہ صاحب اذان تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ عرصہ دراز سے شہر کے حالات اور ظلم و جبر نے مجھے خاموش کر رکھا ہے ورنہ میں بھی لوگوں کو ظلم کے خلاف بیدار کرتا تھا۔جس طرح ایک مؤذن لوگوں کو نماز کے لئے آگاہ کرتا ہے۔
غزل نمبر 2
1۔ ایک بھی موسم میرے اندر نہ تھا
اور آنکھوں میں کوئی منظر نہ تھا
اور آنکھوں میں کوئی منظر نہ تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ میری زندگی میں کبھی خوشگوار موسم نہیں آیا ۔میں نےہمیشہ نا امیدی اور محرومی میں زندگی گزاری ،کبھی زندگی میں خوشی کا منظر نہیں دیکھا کہ خوشی کیسی ہوتی ہے
2۔ میرے دائیں بائیں تھیں پرچھائیں
میرے ہاتھوں میں کوئی پتھر نہ تھا
میرے ہاتھوں میں کوئی پتھر نہ تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ میرے چاروں اطراف ظلم ہی ظلم تھا اور میرے ہاتھوں میں اس سے بچنے کے لئے کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔گویا کہ جب انسان مصیبت میں ہوتا ہے تو اس کے سمجھ میں مصیبت سے بچنے کے لئے جلد کوئی تدبیر نہیں آتی ہیں ۔
3۔ خواب اپنے کیا حقیقت ہوگئے
لمس کیسا تھا اگر پیکر نہ تھا
لمس کیسا تھا اگر پیکر نہ تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ میری امیدیں اس خواب کی طرح ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے ۔مجھے لگتا تھا کہ میری امیدیں پوری ہوجائیں گئے اور میرے دکھوں اور دل پر لگے زخموں کا مداوا ہوگا لیکن یہ محض ایک وہم تھا ۔آئندہ بھی ایسا کچھ ہونے والا ہی نہیں جس میری امیدیں پوری ہوں گی اور غموں کا مداوا ہوگا ۔
4۔ چھا گیا تھا شہر پر افسوس کوئی
چاند جب نکلا کوئی چھت پر نہ تھا
چاند جب نکلا کوئی چھت پر نہ تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ چاند نکل چکا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اب ہر طرف خوف ہی خوف ہے اور کوئی اس کو چھت پر چڑکر دیکھنے والا نہیں ۔اگر امن و سکون ہوتا تو لوگ اس کے دیدار کے لئے اپنے چھتوں پر اس کے نظاروں سے لطف اندوز ہوجاتے ۔
5۔ اک صدا گونجی مکان میں دیر تک
کیا تھا یہ ہمدم کوئی در پر نہ تھا
کیا تھا یہ ہمدم کوئی در پر نہ تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں شہر کے خوف و ہراس کو ظاہر کرتے ہوئے خود سے مخاطب ہوکر فرماتےہیں کہ اے ہمدم مکان سے چیخیں نکلتی ہیں کوئی زور و قطار سے رو رہا ہے مگر اسکے دروازے پر کوئی بھی موجود نہیں ۔
۔
No comments:
Post a Comment