ہمدم کاشمیریؔ
خصوصیات کلام:- انکی غزلوں میں فکر کی گہرائی اور احساس کی گرمی اور اسلوب کی تازگی پائی جاتی ہیں ۔ہمدم کی غزلیاتذاتی مشاہدات اورتجربات پر مبنی ہیں ۔ ان کی غزلوں میںسادگی بھی ،شخصی جذبات کی کارفامائی بھی ،لیکن بدقسمتی یہ کہ وہ شعر و ادب کی راہ میں ثابت قدم نہیں رہے۔ ان کا بیچ کا کچھ عرصہ ان کی نجی مصروفیات کی وجہ سے گم ہوگیا اسلئے وہ گمنامی کے بازاروں میں کھوگئے لیکن وہ سنجیدگی کے ساتھ شعر و ادب کی راہ پر گامزن ہیں
ہمدم کاشمیری ؔ کی غزل سے ان کی وسیع مطالعہ کا ایادہ بخوبی ہوتا ہے انکے طرز تحریر میں جدت پائی جاتی ہیں ۔وہ حقیقی فنکار ہے اسی لئے حقائق بیان کرنے میں عار نہیں کرتے ان کی غزلوں میں انسان کی تمام دردمندی کا اظہار نہایت لطیف انداز میں ملتا ہے اور ان کی غزلوں میں روایت کی پاسداری کے ساتھ ساتھ جدید رنگ ملتا ہے ۔
انکی غزلوں میں انقلابی مضامین کو بڑی خوش اسلوبی کے ساتھ بیان کیا گیا ہے۔ سادہ اور مؤثر زبان ان کی غزلوں کی خاص جوہر ہے ۔ انہوں دور جدید کی حالات پر گہرا طنز کیا ہے اور سماجی برائیوں کو اپنی غزلوں کے زریعےاجاگر کیا ہے ۔
غزلیات ہمدم کاشمیری
1۔ ایسا نہیں کہ سر پر سداآسمان تھا
میرا بھی شہر میں کبھی کوئی مکان تھا
میرا بھی شہر میں کبھی کوئی مکان تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ میرا آبائی شہر ویران نہیں تھا بلکہ یہ ایک خوبصورت شہر تھا اور اس شہر میں میرا بھی ایک خوبصورت مکان تھا۔لیکن زمانے کے نامسائد حالات نے اس شہر کو اور میرے مکان کو خاکستر کر دیا اور میں بے سر وسامانی کی حالات میں آسمان تلے آگیا۔
4۔ اس روشنی کے شہر میں طلمت کرے گی راج
مجھ کو یقین تھا نہ تجھے ہی گمان تھا
مجھ کو یقین تھا نہ تجھے ہی گمان تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ ہم میں کسی کو اس کااندازہ نہ تھا کہ ایک ایسا دور بھی آئےگا جب ہر طرف اس شہر میں تاریکی ،یعنی ظلم و جبر اور بربریت ہوگی اور چار سو بے سکونی ہوگی
3۔ دھویا نہیں گیا جو کسی بر شگال میں
میری زمیں پر وہ لہو کا نشان تھا
میری زمیں پر وہ لہو کا نشان تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ میرے وطن کی سر زمین پر خون خرابی کی وجہ سے اتنے نشان لگے ہوئے ہیں جس کو وقت کی کوئی بارش یا طوفان مٹا نہیں سکی یعنی دنیا آج تک میرے وطن میں خون خرابہ ختم کرنے سے قاصر رہی۔
4۔ ہمدم کو چپ لگی ہے زمانہ گزر گیا
اس شہر خامشی میں وہ صاحب اذان تھا
اس شہر خامشی میں وہ صاحب اذان تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ عرصہ دراز سے شہر کے حالات اور ظلم و جبر نے مجھے خاموش کر رکھا ہے ورنہ میں بھی لوگوں کو ظلم کے خلاف بیدار کرتا تھا۔جس طرح ایک مؤذن لوگوں کو نماز کے لئے آگاہ کرتا ہے۔
غزل نمبر 2
1۔ ایک بھی موسم میرے اندر نہ تھا
اور آنکھوں میں کوئی منظر نہ تھا
اور آنکھوں میں کوئی منظر نہ تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ میری زندگی میں کبھی خوشگوار موسم نہیں آیا ۔میں نےہمیشہ نا امیدی اور محرومی میں زندگی گزاری ،کبھی زندگی میں خوشی کا منظر نہیں دیکھا کہ خوشی کیسی ہوتی ہے
2۔ میرے دائیں بائیں تھیں پرچھائیں
میرے ہاتھوں میں کوئی پتھر نہ تھا
میرے ہاتھوں میں کوئی پتھر نہ تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ میرے چاروں اطراف ظلم ہی ظلم تھا اور میرے ہاتھوں میں اس سے بچنے کے لئے کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔گویا کہ جب انسان مصیبت میں ہوتا ہے تو اس کے سمجھ میں مصیبت سے بچنے کے لئے جلد کوئی تدبیر نہیں آتی ہیں ۔
3۔ خواب اپنے کیا حقیقت ہوگئے
لمس کیسا تھا اگر پیکر نہ تھا
لمس کیسا تھا اگر پیکر نہ تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ میری امیدیں اس خواب کی طرح ہیں جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے ۔مجھے لگتا تھا کہ میری امیدیں پوری ہوجائیں گئے اور میرے دکھوں اور دل پر لگے زخموں کا مداوا ہوگا لیکن یہ محض ایک وہم تھا ۔آئندہ بھی ایسا کچھ ہونے والا ہی نہیں جس میری امیدیں پوری ہوں گی اور غموں کا مداوا ہوگا ۔
4۔ چھا گیا تھا شہر پر افسوس کوئی
چاند جب نکلا کوئی چھت پر نہ تھا
چاند جب نکلا کوئی چھت پر نہ تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں فرماتےہیں کہ چاند نکل چکا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اب ہر طرف خوف ہی خوف ہے اور کوئی اس کو چھت پر چڑکر دیکھنے والا نہیں ۔اگر امن و سکون ہوتا تو لوگ اس کے دیدار کے لئے اپنے چھتوں پر اس کے نظاروں سے لطف اندوز ہوجاتے ۔
5۔ اک صدا گونجی مکان میں دیر تک
کیا تھا یہ ہمدم کوئی در پر نہ تھا
کیا تھا یہ ہمدم کوئی در پر نہ تھا
تشریح: ہمدم کاشمیری اس شعر میں شہر کے خوف و ہراس کو ظاہر کرتے ہوئے خود سے مخاطب ہوکر فرماتےہیں کہ اے ہمدم مکان سے چیخیں نکلتی ہیں کوئی زور و قطار سے رو رہا ہے مگر اسکے دروازے پر کوئی بھی موجود نہیں ۔
درسی سوالات ہمدم کاشمیری
سوالات :
س1:-پہلی غزل کے دوسرے شعر کو پڑھ کر بتائے کہ شاعر کو کس چیز کا گمان نہیں تھا ۔
جواب:۔ شاعر کو یہ گمان نہ تھا کہ شہر کے حالات بگڑ جائیں گے اور امن و سکون کا جنازہ نکل جائے گا ۔ہر طر ف خوف و ہراس پھیل جائے گا ۔
س2:-صنعت تضاد سے کیا مراد ہے ،ہمدم کاشمیری کی دونوں غزلوں میں صنعت تضاد والے اشعار تلاش کیجیے۔
ج:۔ شعر میں ایسے الفاظ لئے جائیں جو معنی میں ایک دوسرے کی ضد ہوں اسکو صنعت تضاد کہتے ہیں ۔
1- اس روشنی کے شہر میں ظلمت کے راج
مجھ کو یقین تھا نہ ہی گمان تھا
مجھ کو یقین تھا نہ ہی گمان تھا
2- میرے دائیں بائیں تھیں پرچھائیاں
میرے ہاتھوں میں کوئی پھتر نہ تھا
No comments:
Post a Comment