شبیب رضوی
شبیب
رضوی
سید
شبیب رضوی 25جون 1935ء کو قصبہ زہر پور ضلع بارہ بنکی (اترپردیش )میں پیدا ہوئے۔ابھی
کم سن ہی تھے والد سید محمد موعظ حسین رضوی کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔دینی تعلیم اپنے
والد سے حاصل کی تھی ۔عربی فارسی کے مروجہ امتحانات پاس کرکے جامعہ سلطانیہ لکھنو سے
سند الا فاضل اور صدر الافاضل کی اسناد حاصل کیں اسکے علاوہ ہندی میں پوریش اور اردو
میں ادیب ماہر کے امتحانات بھی پاس کیے ۔اسکے بعد طب کی تعلیم پائی اور وادی کشمیر
وارد ہوئے یہاں ان کا تقرر گورنمنٹ طبیہ کالج سری نگر میں استاد کی حیثیت سے ہوا اور
ترقی کرتے ہوئے میڈیکل آفیسر کے منصب تک پہنچے آخر اسی عہدے پر اپنی ملازمت سے سبکدوش
ہوئے اسکے بعد آپ نے ایک مقامی طبیہ کالج میں کئی سال تک پروفیسر اور صدر کی حیثیت
سے تدریسی فرائض انجام دیے۔
ڈاکڑ
شبیبؔ رضوی نے اپنے آبائی گھر میں موجود بھر پور علمی اور ادبی ماحول میں ‘کم عمری
‘لگ بھگ گیارہ سال کی عمر میں ہی‘
شعر کہنا شروع کردیا۔ابتدائی کلام پر اپنے
برادر اکبر سے اصلاحِ سخن لیتے رہے۔مختلف اصناف سخن ‘ حمد و نعت‘ منقبت وسلام
‘مرثیہ و غزل‘نظم وقصیدہ‘ قطعہ ورباعی اور مثنوی وغیرہ میں طبع آزمائی کرتے رہے اور آج تک لگ بھگ پنتالیس ہزار
سے بھی زیادہ اشعار کہہ چکے ہیں ۔ جن میں فارسی اور عربی
زبان میں کہے گئے اشعار بھی شامل ہیں اور شعر گوئی کا سلسلہ
ابھی تک شد ومد سے جاری ہے۔ڈاکٹر شبیب ؔرضوی
نے کشمیری زبان کے کئی بلندپایہ شعراء کے کلام کا اردو ترجمہ بھی اپنے مخصوص بیان و
اسلوب میں کیا ہے۔اپنے غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت میں ان کی عدم دلچسپی کے باعث ان کا
کافی کلام ابھی زیورِ طبع سے آراستہ ہونا باقی ہے پھر بھی چار شعری مجموعے‘ آتشِ
چنار(شعری مجموعہ) حرفِ فروزاں(نعت و منقبت) بچوں کے مشاعرے(تمثیلی اور موضوعاتی شاعری)
لہو لہو غزل(اب تک کا آخری شعری مجموعہ) چھپ چکے ہیں اور اسوقت بھی لگ بھگ چار پانچ
مجموعے زیر طبع ہیں۔’’لہو لہو غزل‘‘ ۲۰۱۲
ء میں شائع ہوا
ہے اور اس میں ۷۰
کے قریب غزلیں شامل ہیں۔
خصوصیات
کلام:- ڈاکٹر شبیب ؔرضوی شعیہ مسلک کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔اس لئے ان کے کلام میں
دیگر قدیم اردو شعرا کی طرح رثائی شاعری ملتی ہیں۔ شبیبؔ رضوی کا اپنا ایک الگ اور
مخصوص و منفرد مزاج و رنگ ہے انہوں نے اپنی رثائی شاعری میں وہ مضامین تلاش کئے ہیں
کہ اس فن میں ان کی اسقدر دسترس پر رشک آتا ہے۔ شبیب ؔرضوی نے رثائی شاعری کے علاوہ
بھی جو شاعری کی ہے وہ بھی ہر لحاظ سے ایک قابل ِقدر شاعری ہے لگ بھگ پانچ دہائیوں
پر محیط ان کے تجربات و مشاہدات اور وسیع و عریض مطالعہ و مشاہدہ نے ان کو ایک قادرالکلام
شاعر بنایا ہے۔تقریبا تمام اصناف ِ سخن پر ان کواچھی خاصی گرفت بھی ہے اور ان کا ذخیرہ
الفاظ بھی لا محدود ہے۔
رثائی شاعری کو ان کے ہاں فوقیت ضرور حاصل ہے لیکن اگر ان کی پوری شاعری کو دیکھا جائے تو اس مین انسانیت کا غم نظر آتا ہے شبیبؔ رضوی کے سینے کے اندر ایک ہمدرد دل دھڑکتا ہے جو ہر شخص کے دردسے متاثر ہوتا ہے جس کا عکس فطری طور پر ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ شبیبؔ صاحب بھلے ہی تمام اصنافِ سخن میں شعر کہتے ہوں لیکن ان کی پسندیدہ صنف سخن غزل ہی ہے۔جس اعتماد اور عمدگی کے ساتھ وہ غزل کہتے ہیں وہ انہیں اس صنف کا ایک معتبر و منفرد شاعر بنا دیتا ہے۔ شبیبؔ صاحب کی غزلوں میں وہ سب خوبیاں موجود ہیں جو اس دور کےدوسرے غزل گو شعراء کی غزلوںیں موجودہ ہیں
No comments:
Post a Comment