تازہ ترین

Tuesday, March 24, 2020

شبیب رضوی درسی سوالات|| Urdu Notes For 10th Class


  شبیب رضوی

شبیب رضوی

سید شبیب رضوی 25جون 1935ء کو قصبہ زہر پور ضلع بارہ بنکی (اترپردیش )میں پیدا ہوئے۔ابھی کم سن ہی تھے والد سید محمد موعظ حسین رضوی کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔دینی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی تھی ۔عربی فارسی کے مروجہ امتحانات پاس کرکے جامعہ سلطانیہ لکھنو سے سند الا فاضل اور صدر الافاضل کی اسناد حاصل کیں اسکے علاوہ ہندی میں پوریش اور اردو میں ادیب ماہر کے امتحانات بھی پاس کیے ۔اسکے بعد طب کی تعلیم پائی اور وادی کشمیر وارد ہوئے یہاں ان کا تقرر گورنمنٹ طبیہ کالج سری نگر میں استاد کی حیثیت سے ہوا اور ترقی کرتے ہوئے میڈیکل آفیسر کے منصب تک پہنچے آخر اسی عہدے پر اپنی ملازمت سے سبکدوش ہوئے اسکے بعد آپ نے ایک مقامی طبیہ کالج میں کئی سال تک پروفیسر اور صدر کی حیثیت سے تدریسی فرائض انجام دیے۔

ڈاکڑ شبیبؔ رضوی نے اپنے آبائی گھر میں موجود بھر پور علمی اور ادبی ماحول میں ‘کم عمری ‘لگ بھگ گیارہ سال کی عمر میں ہی‘ شعر کہنا شروع کردیا۔ابتدائی کلام پر اپنے  برادر اکبر سے اصلاحِ سخن لیتے رہے۔مختلف اصناف سخن ‘ حمد و نعت‘ منقبت وسلام ‘مرثیہ و غزل‘نظم وقصیدہ‘ قطعہ ورباعی اور مثنوی وغیرہ میں طبع آزمائی کرتے رہے اور آج تک لگ بھگ پنتالیس ہزار سے بھی زیادہ اشعار کہہ چکے ہیں ۔ جن میں فارسی اور عربی زبان میں کہے گئے اشعار بھی شامل ہیں اور شعر گوئی کا سلسلہ ابھی تک شد ومد سے جاری ہے۔ڈاکٹر شبیب ؔرضوی نے کشمیری زبان کے کئی بلندپایہ شعراء کے کلام کا اردو ترجمہ بھی اپنے مخصوص بیان و اسلوب میں کیا ہے۔اپنے غیر مطبوعہ کلام کی اشاعت میں ان کی عدم دلچسپی کے باعث ان کا کافی کلام ابھی زیورِ طبع سے آراستہ ہونا باقی ہے پھر بھی چار شعری مجموعے‘ آتشِ چنار(شعری مجموعہ) حرفِ فروزاں(نعت و منقبت) بچوں کے مشاعرے(تمثیلی اور موضوعاتی شاعری) لہو لہو غزل(اب تک کا آخری شعری مجموعہ) چھپ چکے ہیں اور اسوقت بھی لگ بھگ چار پانچ مجموعے زیر طبع ہیں۔’’لہو لہو غزل‘‘ ۲۰۱۲ ء    میں شائع ہوا ہے اور اس میں ۷۰ کے قریب غزلیں شامل ہیں۔

خصوصیات کلام:- ڈاکٹر شبیب ؔرضوی شعیہ مسلک کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ۔اس لئے ان کے کلام میں دیگر قدیم اردو شعرا کی طرح رثائی شاعری ملتی ہیں۔ شبیبؔ رضوی کا اپنا ایک الگ اور مخصوص و منفرد مزاج و رنگ ہے انہوں نے اپنی رثائی شاعری میں وہ مضامین تلاش کئے ہیں کہ اس فن میں ان کی اسقدر دسترس پر رشک آتا ہے۔ شبیب ؔرضوی نے رثائی شاعری کے علاوہ بھی جو شاعری کی ہے وہ بھی ہر لحاظ سے ایک قابل ِقدر شاعری ہے لگ بھگ پانچ دہائیوں پر محیط ان کے تجربات و مشاہدات اور وسیع و عریض مطالعہ و مشاہدہ نے ان کو ایک قادرالکلام شاعر بنایا ہے۔تقریبا تمام اصناف ِ سخن پر ان کواچھی خاصی گرفت بھی ہے اور ان کا ذخیرہ الفاظ بھی لا محدود ہے۔

رثائی شاعری کو ان کے ہاں فوقیت ضرور حاصل ہے لیکن اگر ان کی پوری شاعری کو دیکھا جائے تو اس مین انسانیت کا غم نظر آتا ہے  شبیبؔ رضوی کے سینے کے اندر ایک ہمدرد دل دھڑکتا ہے جو ہر شخص کے دردسے متاثر ہوتا ہے جس کا عکس فطری طور پر ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ شبیبؔ صاحب بھلے ہی تمام اصنافِ سخن میں شعر کہتے ہوں لیکن ان کی پسندیدہ صنف سخن غزل ہی ہے۔جس اعتماد اور عمدگی کے ساتھ وہ غزل کہتے ہیں وہ انہیں اس صنف کا ایک معتبر و منفرد شاعر بنا دیتا ہے۔ شبیبؔ صاحب کی غزلوں میں وہ سب خوبیاں موجود ہیں جو اس دور کےدوسرے  غزل گو شعراء کی غزلوںیں موجودہ ہیں

غزلیات(شبیب رضوی)

        کتاب بند سہی حرف تو کھلا رکھنا        
 مباحثے کا ہمیشہ ہی در کھلا رکھنا
تشریح:۔شبیب رضویؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اختلاف اور خدشات کا خاتمہ کرنے کے لئے انسان کو بات چیت کا دروزہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے تاکہ گفتگو سے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکیں ۔خاموشی سے صرف اختلاف اور نفرت  بڑھ جاتی ہیں
2۔ سکوت شب سے بھی اکتا کے لوٹ سکتا ہوں                  
میں کہ کے آیا وں بچوں سے گھر کھلا رکھنا
تشریح:۔شبیب رضویؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ میں گھر سے اکتا گیا ہوں اور گھر چھوڑ کر آیا ہوں مگر کیا پتہ کہ باہر بھی یہی اکتاہٹ محسوس ہو اسلئے بچوں سے کہہ کے آیا ہوں کہ دروازہ کھلا رکھنا۔تاکہ مجھے گھر میں داخل ہونے میں کوئی دقت محسوس نہ جائے ۔
        ہماری شرط کہ ہم پر ہو سایہ رحمت
                     تمہاری ضد ہے کہ کوفے میں سر کھلا رکھنا
تشریح:۔شبیب رضویؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ اے خدا ہم  تجھ سے کچھ چاہتے ہے اور تمہاری منشا کچھ اور ہی ہوتی ہے ۔ہمیں تم سے رحمت کی امید ہوتی ہے لیکن تمہیں کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے اور کوفے جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں جہاں زینب کو یزیدیوں نے ننگے سر چلنے پر مجبور کیا۔
4. شکستگی ہوئی ظاہر تو موت لازم                          
                                   کھلی ہواؤں کے دھار ے پہ پر کھلا رکھنا
تشریح:۔شبیب رضویؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ غموں  اور دکھوں سے انسان کو ٹوٹنا نہیں چاہے  کیوں کہ انسان  کاٹوٹنا ہی موت ہے اسلئے انسان کو ہمت اور استقلال سے زندگی کے سفر جاری رکھنا چاہے۔
        کسی کا ہاتھ بڑھے یا کھنچے یہ اس کا نصیب ہے
           ہمارا فرض ہے دست ہنر کھلا رکھنا
تشریح:۔شبیب رضویؔ اس شعر میں فرماتے ہیں  کہ ہمیں اپنی طرف سے اچھا ہی کرنا چاہے پھر  لوگ کیا سوچتے ہیں یہ ان کی مرضی ہے ہم اپنے شعروں سے لوگوں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہے ۔ اب لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فیضیاب ہونا چاہتے ہیں یا نہیں  

                                                غزل نمبر 2 (شبیب رضوی)
        کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے
                         زندگی دشت کربلا سی ہے
تشریح:- شبیب رضوی ؔاس شعرمیں موجودہ دور کو سانحہ کربلا سے تشبیہ دے کر فرماتے ہیں کہ جس طرح کربلا میں ماسوم لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں پیاسا رکھا گیا اسی طرح آج کے دور میں بھی لوگ ظلم کا شکار ہے اوربھوکے پیاسے زندگی گزار رہے ہیں ۔
        سب گئے شمع دل جلائے ہوئے                         
خیمہ خیمہ اداسی ہے
تشریح:- شبیب رضوی ؔاس شعر میں موجودہ دور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح کربلا کے میدان میں سب لوگوں کو ایک ایک کر کے شہید کر دیا گیا اور صرف عورتیں ہی بچ پائی اور ان کے خیموں میں اداسی چھا گئی اسی طرح آج کے دور کے حالات بھی ہیں
        اس نے کتنی لطیف بات کہی        
                      خد شناسی خدا شناسی ہے
تشریح:- شبیب رضوی ؔاس شعر میں فرماتے ہیں کہ جو انسان خو سے اشنا ہوتا وہی خدا سے بھی آشنا ہوتا ہے یعنی خدا کو پہنچانے اور اس سے واقف ہونے کے لئے انسان کو پہلے خود سے آشنا ہونا لازمی ہے۔
        پھیل جائے تو ایک کتاب ہے
                        بات کہنے میں زرا سی ہے
تشریح:- شبیب رضوی ؔاس شعر میں فرماتے ہیں کہ اگر معمولی سی بات کی وضاحت کی جائے تو ایک بہت بڑی کتاب بن سکتی ہیں یہ صرف وضاحت کر نے والے پر منحصر ہیں کہ اس میں تشریح کرنے کی کتنی صلاحت ہیں ۔
        زندگی خودکشی نہ کرے کہیں 
                             ہر تمنا خفا خفا سی ہے
تشریح:- شبیب رضوی ؔاس شعر میں فرماتے ہیں کہ انسان کی امیدیں جب پوری نہیں ہوتی اور آئندہ بھی انکو  پورا ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو انسان اپنی زندگی سے تنگ آجاتا ہے اور پھراس دکھ بری زندگی سے نجات کا واحد ذریعہ خودکشی کو ہی سمجھتا ہے۔
                                  

              سوالات
س1۔    ایسے تین اشعار قلم بند کیجےجن میں واقعہ کربلا کی طرف اشار ہ کیا گیا ہو۔
جواب:   جن تین اشعار میں واقعہ کربلا کی طرف اشارہ ہے۔وہ حسب ذیل ہے:
        کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے              
  زندگی دشت کربلا سی ہے
        سب گئے دل شمع دل جلائے ہوئے
       خیمہ خیمہ بہت اداسی ہے
        ہماری شرط کہ ہم پر ہو سایہ رحمت
         تمہاری ضد ہے کہ کوفے میں سر کھلا رکھنا
س2:     پہلی غزل کے دوسرے شعر میں کیوں بچوں کو گھر کھلا رکھنے کے لئے کہا گیا ۔
جواب :۔ شاعر دل کی گبراہٹ سے اگتا گیا تھا اور گھر سے بھاگ نکلا تھا مگر اس سے ڈر تھا کہ کہی وہ باہر بھی اکتاہٹ کا شکار نہ ہوجائے اسلئے بچو ں سے گھر کھلا رکھنے کو کہا تھا ۔
س3۔    پہلی غزل کے تیسرے شعر میں شاعر نے جس واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے اسے مختصر بیان کیجیے۔
جواب:   پہلی غزل کے تیسرے شعر میں شاعر نے واقعہ کربلا کی طرف اشارہ کیا ہے ۔یہ سانحہ عراق میں کربلا کے مقام پر پیش آیا ہے یہ اسلامی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہیں ۔یہ حق اور باطل کے درمیان میں لڑائی تھی جس میں حضرت حسین ؑ کو ان کے ساتھوں سمت یزیدوں نے شہید کردیا۔

No comments:

Post a Comment