تازہ ترین

Tuesday, March 24, 2020

اکبر جے پوری درسی سوالات

اکبر جے پوری
آپ کا اصلی نام محمد اکبر اور تخلص اکبرؔ ہے۔آپ ادنی حلقوں میں اکبر جے پوری کے نام سے مشہور ہیں ۔آپ 23 اکتوبر 1927ء کو جے پور راجستھان میں تولد ہوئے۔ آپ کے والد کا نام آغا سید علی عابدی ہے۔ آپ پیشیے سے ایک معلم تھے ،آپ نے اپنا ادبی سفر کشمیر وارد نونے سے پہلے ہی شروع کیا تھا ۔
انہوں نے غزلوں کے علاوہ حمد ،نعت ،مدح ،اور رسائی نطمیں بھی لکھی ہیں آپ ایک رومانی شاعر تھے ۔انہوں نے اپنے کلام میں سیدھے سادھے اور بامحاورہ  الفاظ کا استعمال کیا ہے آپکی زبان اپکے کلام کی پہچان ہے ۔شمع فروزاں ،شباب وطن، ساز شکستہ، فکر خیال، اور فکر وفن آپکے شائع شدہ شعری مجموعے ہیں ۔"چمن زار "اور بچوں کے لئے نظموں کا مجموعہ "شگوفے" اپکی وفات کے بعد شائع ہوئے۔آپ 4 مارچ 1998ء کو سرینگر کے حسین آباد رعناواری علاقے میں وفات پا گئے۔
خصوصیات کلام :- اکبرؔ جے پوری کے شعری محاسن میں جو چیز قاری کو زیادہ متاثر کرتی ہے و ہ یہ کہ اکبرؔ جے پوری اپنے ماحول سے متاثر ہیں اورا ن کا تجربہ یقینا حال کا تجربہ ہوتا ہے۔ اکبر جے پوری نے اپنی شعروشاعری میں اپنے دل پر گزری واردات کو سیدھی سادھی زبان میں اس طرح ادا کیا ہے کہ پڑھنے والوں کو محسوس ہوتا ہے گویا یہ بھی میرے دل میں ہے۔ اکبر کے کلام میں غم جاناں اور غم ِدوراں کی ہی عکاسی نہیں ملتی بلکہ ان کے یہاں علاوہ ازیں دنیوی نا ہمواریوں پر طنز بھی چھلکتا ہے  ۔اکبرؔجے پوری کی شاعری اُن کی زندگی میں پیش آنے والی دشوار گذار مراحل کی آئینہ دار ہے۔آپ نے ہندوستان کے مختلف علاقوں کا سفر کیا ، فطرت کی نیرنگوں اور کائنات کے رنگارنگ مظاہرکا باریک بینی سے مشاہدہ کیا ، یہی وجہ ہے کہ اُن کے کلام میں سنجیدگی اور خود اعتمادی کے ساتھ ساتھ خلوص اور یقین بھی بے انتہا موجود ہے،ان اشعار میں جذبوں کی رعنائی ہے جو زندگی کی صورت گری کرتی ہے۔انہوں نے روش عام سے ہٹ کر سچے جذبات  کوشعری کے قالب میں سمودیا ہے،ایسی شاعری جس کی اساس حقیقی جذبات اور محسوس خیالات پر استوار ہوتی ہے۔وہ غزل کی زبان،  ِاسالیب ِاظہاراور فنی تقاضوںسے خوب واقف ہیں۔اس شاعری میں محض غم ِذات ہی نہیں بلکہ غم کائنات اور عصری زندگی کی الم ناکیاں بھی ہیں  ۔اکبرؔجے پوری کی فکر کا میدان وسیع ہے۔ غزل، سلام،مرثیہ اور نظم ہر صنف میں ان کی کاوش موجود ہے،لیکن غزل گوئی کی طرف ان کی توجہ زیادہ رہی اوراسُ صنف میں کافی بیش قیمت سرمایہ چھوڑا ۔
                                                          
    غزلیات

1۔        کس کو معلوم ملے خاک میں منظر کتنے    
            اپنے آیئنے چھپائے ہیں سکندر کتنے

تشریح:  اکبرجے پوریؔ اس شعر میں فرماتےہیں کہ  یہ دنیا فانی ہے یہاں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں ہیں یہاں کتنے پڑے بڑے بادشاہ آئے مگر آج ان کا نام و نشان نہیں ہیں ۔سکندر ایک اعظیم بادشاہ تھا جو پوری دنیا فتح کرنے کا عذم رکھتا تھا مگر وہ بھی موت سے بچ نہ سکا اور ختم ہوگیا

2۔        تشنہ لب ترساکئے پیاس لئے آنکھوں میں       
         اور محلوں میں جھلکنے رہے ساغر کتنے

تشریح:  اکبرجے پوریؔ اس شعر میں سماجی نابرابری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ کہ یہاں کچھ لوگ اہم اور بنیادی ضروریات کے لئے ترستے ہیں ،تو دوسری طرف امیر اور روسا عیاشی کرتے ہوئے عیش پرستی کی زندگی گزارتے ہیں اور غربا کی طرف کھبی ہمدردی کی نگاہ نہیں کرتے ۔

3۔        پرچم امن لئے پھرتے شہروں شہروں         
        آستینوں میں چھپائے ہوئے خنجر کتنے

تشریح:  اکبرجے پوریؔ اس شعر میں فرماتےہیں کہ  اس دنیا میں کچھ لوگ امن کا نعرہ لے ہوئے نگر نگر امن کا پرچار کرتے ہیں مگر حقیقت میں وہ امن کے خواہاں نہیں ہیں بلکہ اصل میں یہی امن کے دشمن ہیں اور امن  کے نام پر فتنہ و فساد پھیلاتے ہیں ۔

4          کس طرح دنیا صدا مجھ کو پتہ یاد نہیں تھا     
          یوں تو بستی میں نظر آئےکھلے در کتنے

تشریح:  اکبرجے پوریؔ اس شعر میں اپنے محبوب سے مخاطب ہو کر فرماتےہیں کہ میں تمہارے دیدار کے لئے تمہارے شہر تک آگیا مگر تمہارا صحیح پتہ نہ ہونے کی وجہ سے تمہیں آواز نہ دے سکا ۔وہیں کئی آشیانوں کے در کھلے تھے مگر مجھے ان کا کیا کرنا تھا مجھے صرف آپ کے آشیانے کی تلاش تھی ۔

5۔        دیکھ کر تشنہ لبی میری تعجب نہ کرو          
            میں نے صحراوں کو بخشے ہیں سمندر کتنے

تشریح:  اکبرجے پوریؔ اس شعر میں فرماتےہیں کہ  میرے پیاسے لبوں کو دیکھ کر حیران نہ ہو جا میں وہ شخض ہوں جس نے کھبی خود کی پرواہ نہیں کی بلکہ ہمیشہ دوسروں کوفائدہ پہنچاتا رہا اور اسطر ح خود پیاسا ہی رہ گیا ۔
       


سوال:    امن کا پرچار کرنے والوں کی آستینوں میں چھپا ہوا ہے؟

جواب:۔ امن کا پرچار کرنے والوں کی آستینوں میں خنجر چھپا ہوا ہے۔  

No comments:

Post a Comment