غزلیات(شبیب رضوی)
1۔ کتاب بند سہی حرف تو کھلا رکھنا
مباحثے کا ہمیشہ ہی در کھلا رکھنا
تشریح:۔شبیب رضویؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اختلاف اور خدشات کا خاتمہ کرنے کے لئے انسان کو بات چیت کا دروزہ ہمیشہ کھلا رکھنا چاہیے تاکہ گفتگو سے مسائل کا حل تلاش کیا جا سکیں ۔خاموشی سے صرف اختلاف اور نفرت بڑھ جاتی ہیں
2۔ سکوت شب سے بھی اکتا کے لوٹ سکتا ہوں
میں کہ کے آیا وں بچوں سے گھر کھلا رکھنا
تشریح:۔شبیب رضویؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میں گھر سے اکتا گیا ہوں اور گھر چھوڑ کر آیا ہوں مگر کیا پتہ کہ باہر بھی یہی اکتاہٹ محسوس ہو اسلئے بچوں سے کہہ کے آیا ہوں کہ دروازہ کھلا رکھنا۔تاکہ مجھے گھر میں داخل ہونے میں کوئی دقت محسوس نہ جائے ۔
3۔ ہماری شرط کہ ہم پر ہو سایہ رحمت
تمہاری ضد ہے کہ کوفے میں سر کھلا رکھنا
تشریح:۔شبیب رضویؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ اے خدا ہم تجھ سے کچھ چاہتے ہے اور تمہاری منشا کچھ اور ہی ہوتی ہے ۔ہمیں تم سے رحمت کی امید ہوتی ہے لیکن تمہیں کچھ اور ہی منظور ہوتا ہے اور کوفے جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں جہاں زینب کو یزیدیوں نے ننگے سر چلنے پر مجبور کیا۔
4. شکستگی ہوئی ظاہر تو موت لازم
کھلی ہواؤں کے دھار ے پہ پر کھلا رکھنا
تشریح:۔شبیب رضویؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ غموں اور دکھوں سے انسان کو ٹوٹنا نہیں چاہے کیوں کہ انسان کاٹوٹنا ہی موت ہے اسلئے انسان کو ہمت اور استقلال سے زندگی کے سفر جاری رکھنا چاہے۔
5۔ کسی کا ہاتھ بڑھے یا کھنچے یہ اس کا نصیب ہے
ہمارا فرض ہے دست ہنر کھلا رکھنا
تشریح:۔شبیب رضویؔ اس شعر میں فرماتے ہیں کہ ہمیں اپنی طرف سے اچھا ہی کرنا چاہے پھر لوگ کیا سوچتے ہیں یہ ان کی مرضی ہے ہم اپنے شعروں سے لوگوں کو فائدہ پہنچانا چاہتے ہے ۔ اب لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ فیضیاب ہونا چاہتے ہیں یا نہیں
غزل نمبر 2 (شبیب رضوی)
1۔ کتنی بھوکی ہے کتنی پیاسی ہے
زندگی دشت کربلا سی ہے
تشریح:- شبیب رضوی ؔاس شعرمیں موجودہ دور کو سانحہ کربلا سے تشبیہ دے کر فرماتے ہیں کہ جس طرح کربلا میں ماسوم لوگوں کو ظلم کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں پیاسا رکھا گیا اسی طرح آج کے دور میں بھی لوگ ظلم کا شکار ہے اوربھوکے پیاسے زندگی گزار رہے ہیں ۔
2۔ سب گئے شمع دل جلائے ہوئے
خیمہ خیمہ اداسی ہے
تشریح:- شبیب رضوی ؔاس شعر میں موجودہ دور کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جس طرح کربلا کے میدان میں سب لوگوں کو ایک ایک کر کے شہید کر دیا گیا اور صرف عورتیں ہی بچ پائی اور ان کے خیموں میں اداسی چھا گئی اسی طرح آج کے دور کے حالات بھی ہیں
3۔ اس نے کتنی لطیف بات کہی
خد شناسی خدا شناسی ہے
تشریح:- شبیب رضوی ؔاس شعر میں فرماتے ہیں کہ جو انسان خو سے اشنا ہوتا وہی خدا سے بھی آشنا ہوتا ہے یعنی خدا کو پہنچانے اور اس سے واقف ہونے کے لئے انسان کو پہلے خود سے آشنا ہونا لازمی ہے۔
4۔ پھیل جائے تو ایک کتاب ہے
بات کہنے میں زرا سی ہے
تشریح:- شبیب رضوی ؔاس شعر میں فرماتے ہیں کہ اگر معمولی سی بات کی وضاحت کی جائے تو ایک بہت بڑی کتاب بن سکتی ہیں یہ صرف وضاحت کر نے والے پر منحصر ہیں کہ اس میں تشریح کرنے کی کتنی صلاحت ہیں ۔
5۔ زندگی خودکشی نہ کرے کہیں
ہر تمنا خفا خفا سی ہے
تشریح:- شبیب رضوی ؔاس شعر میں فرماتے ہیں کہ انسان کی امیدیں جب پوری نہیں ہوتی اور آئندہ بھی انکو پورا ہونے کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو انسان اپنی زندگی سے تنگ آجاتا ہے اور پھراس دکھ بری زندگی سے نجات کا واحد ذریعہ خودکشی کو ہی سمجھتا ہے۔
No comments:
Post a Comment